کلمات کفر
حضرتِ انسان پر اللہ تعالیٰ کے بے پاں احسانات ہیں، جنھیں وہ اپنے احاطہ شمار میں نہیں لاسکتا ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا)
(ابراهيم : ٣٤)
’’اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو گے تو نہیں گن سکو گے۔“
اس نے اسے دو آنکھیں دیں جن کے ذریعہ وہ دیکھتا ہے اور زبان دی جس کے ذریعہ وہ کلام کرتا ہے۔
(اَلَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ عَیْنَیْنِ(8)وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیْنِ)
(البلد : ۸-۹)
’’ کیا ہم نے اس کے لیے دو آنکھیں نہیں بنائی ہیں، اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائے ہیں۔“
ان نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا شکر گزار بندہ بنے ، اور انہیں ارتکاب معاصی کے لیے استعمال نہ کرے، کیونکہ ان نعمتوں کو ارتکاب معاصی کے لیے استعمال کرنا کفر اور شرک ہے۔ مثلا قسم زبان سے کھائی جاتی ہے اور اللہ کی قسم کھانا عبادت ہے، اور اللہ کا حق ہے، پس اگر کوئی شخص اس زبان کے ساتھ غیر اللہ کی قسم اٹھاتا ہے تو وہ مشرک ہو جائے گا۔
سید نا عبد اللہ بن عمرؓ نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا:
((لَا وَالْكَعْبَةِ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ! إِنِّى سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ حَلَفَ لِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ أَشْرَكَ .))
صحيح سنن ابو داؤد، كتاب الأيمان والنذور ، رقم: ۳۲۵۱، سنن ترمذی، ابواب الأيمان والنذور رقم : ١٥٣٥ ، صحیح ابن حبان، رقم: ٤٣٥٨ .
نہیں! کعبہ کی قسم ! تو آپ نے فرمایا:
میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرماتے تھے :
جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔“
غیر اللہ کی قسم کھانے والی بے ہودہ عادت اور شرکیہ طرز آج بکثرت عوام میں رائج ہے، چنانچہ جاہلوں میں یہ رجحان عام ہوتا جارہا ہے کہ اللہ کی قسم کھانے پر کہنے والے کی بات کو سچ نہیں سمجھا جاتا ، جب تک وہ غیر اللہ کی قسم نہ کھالے۔ مثلاً اولاد کی قسم کھانا، پیغمبر کی ، پیر کی اور رزق وغیرہ ، اور یہ کلمات کفر سے ہے۔
ان حالات میں علماء اسلام کا فرض ہے کہ وہ عوام میں صحیح دینی اسپرٹ اور بیداری کو عام کریں، راست اور درست عقائد لوگوں کو سکھلائیں ۔ اور خاص طور سے ان کفریہ و شرکیہ امور سے بچنے کی تلقین کریں، ( شرکیہ و کفریہ کلمہ ) غیر اللہ کی قسم کھانے کی ممانعت کئی احادیث میں وارد ہے۔ چنانچہ عبد اللہ بن عمرؓ ، بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَنْهَاكُمُ اَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ وَمَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفُ باللهِ اَوْ لِيَصُمُتُ))
صحیح بخاری
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے آباء و اجداد کی قسم کھانے سے منع فرمایا ہے ، اس لیے جسے قسم کھانا ہو، اس کو چاہیے کہ یا تو اللہ کی قسم کھائے ورنہ چپ رہے۔“
پس غیر اللہ کی قسم اٹھانا ”کلمات کفر و شرک‘‘ سے ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ قضاء قدر پر ایمان نہ رکھتے ہوئے لفظ ” کو “ (اگر) کا استعمال بھی شرک ہے، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہؓ مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
نفع بخش چیز کے حصول کے لیے انتھک جد و جہد کرو، اور تمام امور میں صرف اللہ ہی سے مدد طلب کرو، ایسا نہ ہو کہ تقدیر پر بھروسہ کر کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جاؤ ، انتہائی جد و جہد کے باوجود بھی اگر مقصود حاصل نہ ہو تو ایسا ہر گز نہ کہو کہ اگر یوں کرتا تو یوں ہوتا ۔ بلکہ یہ کہو کہ اللہ نے جو مقدر کیا اور چاہا وہی ہوا ۔ کیونکہ ’’لَوُ‘‘(اگر) شیطانی عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
صحيح مسلم، كتاب القدر، باب الإيمان بالقدر والإيمان، سنن ابن ماجه، كتاب الزهد، رقم: ٤١٦٧ ، صحيح ابن حبان، رقم: ٥٦٩٢.
قارئین کرام ! عوام سے کچھ کلمات عام طور پر سننے میں آتے رہتے ہیں، جو کہ در حقیقت کلمات کفر ہیں ۔ مثلاً :
➊ اے اللہ عز وجل ! مجھے رزق دے، اور مجھے پر تنگدستی ڈال کر ظلم نہ کر ۔
ایسا شخص کافر ہے۔ دیکھئے فتاویٰ عالمگیری ۲۶۰/۳۔
اس لیے کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(وَ مَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ)
(حم السجدة : ٤٦)
’’اور آپ کا رب اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔‘‘
➋ کہتے ہیں اللہ عز وجل صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ میں کہتا ہوں یہ سب بکواس ہے۔
دراصل یہ نظریہ حلولیہ اور اتحادیہ کا ہے، جو کہ سراسر شرک اور کفر ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ)
(البقرة : ١٥٣)
’’بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
➌ کسی کی موت واقع ہوگئی اس پر دوسرے شخص نے کہا:
اللہ تعالیٰ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
یہ کلمہ بھی کفریہ ہے، اس لیے کہ اللہ عز و جل جو کرے اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔
((لَا یُسْــٴَـلُ عَمَّا یَفْعَلُ))
(الأنبياء : ٢٣)
’’اس کے کاموں کے بارے میں اس سے پوچھا نہیں جاسکتا۔‘‘
➍ یہ کہنا کہ ’’آپ ﷺ نور محض تھے۔ جب آپ ﷺ دھوپ یا چاندنی میں چلتے ، آپ کا سایہ نظر نہ آتا تھا۔
نفى الفئ عمّن انار بنوره كل شيء، بریلوی، مجموعه رسائل، ص: ۱۹۹، طبع کراچی۔
مولوی احمد سعید کاظمی لکھتے ہیں:
’’حضور ﷺ کا بدن مبارک بھی نور تھا۔ ‘‘
ميلاد النبی، ص : ١٥۔
اب ان ہفوات کے جائزہ کے لیے آیات قرآنی ملاحظہ ہوں :
حالانکہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے رسول اللہ ﷺ کو یہ واضح اعلان کرنے کا حکم فرمایا:
(هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا)
(بنی اسرائیل : ۹۳)
’’کہ میں تو بشر رسول ہوں۔‘‘
آپ ﷺ کے نور ہونے کا دعویٰ کرنے والے حضرات کو چاہیے کہ وہ قرآنِ مجید میں سے رسول اللہ ﷺ کے بارے (نُورًا رَسُولًا) کے الفاظ دکھلا دیں تو یہ ان کے دعویٰ کی دلیل ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ جو غلطی کفار کو لگی تھی ، وہی غلطی ان کو بھی لگی ہے ۔ وہاں بھی سوچ یہ تھی کہ رسول یا نبی کسی فرشتے کو ہونا چاہیے، اور یہاں بھی نوری رسول کا تصور کارفرما ہے۔
(وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ)
(يوسف : ۱۰۹)
’’اور ہم نے آپ ﷺ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے سب کے سب بستیوں کے رہنے والوں میں سے مرد ہی تھے ، جن کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے۔‘‘
ظاہر ہے کہ ان بستیوں میں انسان ہی رہتے تھے، اور انہی میں سے اللہ تعالیٰ نے جسے چاہا ، تاج نبوت پہنایا۔
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعائے خلیل اور نوید مسیحا
انہی کفریہ کلمات میں سے ایک کلمہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں اور ایک ہی وقت میں اپنے جسم مبارک سمیت کئی مقامات پر موجود ہو سکتے ہیں۔ ایک بزرگ نے اپنے انتقال کے بعد فرمایا:
”میرا جنازہ جلدی لے چلو، حضور ﷺ جنازے کا انتظار فرما رہے ہیں ۔“
تسكين الخواطرفي مسئلة الحاضر والناظر، احمد سعید کاظمی، ص : ٦٥ ، طبع سکھر ۔
شریعت اسلامیہ میں اس قسم کی ہفوات بکنے کی قطعاً گنجائش نہیں ، اب اس قول کا تقابل اللہ تعالیٰ کے قرآن سے کیجیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۖ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ)
(يوسف : ١٠٢) )
’’یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے، جو وحی کے ذریعہ سے ہم آپ ﷺ کو بتلاتے ہیں اور آپ ان (برادرانِ یوسف) کے پاس اس وقت موجود نہ تھے، جب کہ انہوں نے اپنی بات پر اتفاق کر لیا تھا اور وہ فریب کر رہے تھے۔‘‘
بھلا ہم قرآنِ کریم کی بات مانیں یا ان کتابوں میں اڑائی ہوئی ہوائیوں کو؟
فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ
والله ولي التوفيق والسداد وصلى الله على نبيه محمد و على آله وصحبه وسلم.