ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے

➊ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
[بخارى: 756 ، كتاب الأذان: باب وجوب القراءة للإمام والماموم ، مسلم: 394 ، أبو داود: 822 ، ترمذي: 247 ، نسائي: 173/2 ، ابن ماجة: 837 ، أبو عوانة: 124/2]
”جس نے فاتحہ نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں ۔“
➋ مسیئ الصلاۃ کو نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
ثم اقرأ ما تيسر معك من القرآن
[بخاري: 6251 ، كتاب الاستئذان: باب من رد فقال عليك السلام ، مسلم: 397]
”پھر قرآن کا وہ حصہ جو تمہیں یاد ہے اس میں سے جتنا آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لو۔“
➌ ایک روایت میں اسکی مزید وضاحت بھی موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیئ الصلاۃ کو کہا:
ثم اقرأ بام القرآن
[ابن حبان: 484 – الموارد ، أحمد: 100/1 – الفتح الرباني]
”پھر تم ام قرآن (یعنی فاتحہ ) پڑھو۔“
➍ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
من صلى صلاة لم يقرأ فيها بفاتحة الكتاب فهي خداج يقولها ثلاثا
”جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص و نامکمل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ فرمایا۔“
اور اسی روایت میں سورہ فاتحہ کو نماز کہا گیا ہے جیسا کہ اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
قسمت الصلاة بيني و بين عبدي نصفين فنصفها لي ونصفها لعبدي ، ولعبدي ما سأل قال رسول الله اقرأوا يقول العبد: الحمد لله رب العلمين يقول الله تعالى حمدني عبدي
[صحيح: صحيح أبو داود: 734 ، كتاب الصلاة: باب من ترك القراءة فى صلاته بفاتحة الكتاب ، أبو داود: 821 ، مسلم: 395 ، ترمذي: 247 ، نسائى فى الكبرى: 8012 ، أحمد: 285/2 ، ابن خزيمة: 489]
”میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو نصف حصوں میں تقسیم کر دیا ہے اس کا ایک نصف میرے لیے ہے اور دوسرا میرے بندے کے لیے اور میرے بندے کے لیے وہ سب کچھ ہے جو اس نے مانگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پڑھو۔ بندہ کہتا ہے الحمد لله رب العلمين تو اللہ تعالیٰ جواب میں فرماتے ہیں کہ ”میرے بندے نے میری حمد بیان کی“
ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ نماز میں سورہ فاتحہ کی قراءت فرض ہے اور اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔
(جمہور صحابہ و تابعین ، مالکؒ ، شافعیؒ ، احمدؒ) سب اسی کے قائل ہیں۔
(احناف) نماز میں سورہ فاتحہ کی قراءت فرض نہیں ہے بلکہ واجب ہے (یعنی فاتحہ کے بغیر بھی نماز ہو جاتی ہے) کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے کہ : فَاقْرَأَوُا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ اس آیت میں مطلق قراءت کا ذکر ہے اور وہ ایک آیت بھی ہو سکتی ہے۔
[الأم للشافعي: 202/1 ، شرح المهذب: 317/3 ، حلية العلماء فى معرفة مذاهب الفقهاء: 105/2 ، المبسوط: 19/1 ، الهداية: 48/1 ، الكافي لابن عبدالبر: 40 ، كشاف القناع: 386/1]
واضح رہے کہ احناف کا موقف کمزور روایات و استدلال پر مبنی ہے اس کی کچھ تفصیل حسب ذیل ہے:
فَاقْرَاوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ فاتحہ کی فرضیت کے موقف کو رد کرنے کے لیے احناف یہ آیت بطور دلیل پیش کرتے ہیں حالانکہ یہ عام ہے اس کی تخصیص حدیث لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب نے کر دی ہے۔
② احناف کا کہنا ہے کہ حدیث میں مذکور فهي خداج کی کا معنی ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز ناقص ہو جاتی ہے جس سے معلوم ہوا کہ نماز باطل نہیں ہوتی حالانکہ خداج سے یہاں ایسا نقص مراد ہے جو فساد و بطلان کو لازم ہے کیونکہ یہ لفظ عرب میں اس وقت استعمال ہوتا تھا جب اونٹنی حمل ساقط کر دیتی ۔ اور گرا ہوا بچہ مردار ہوتا ہے جو کہ کسی فائدے کا نہیں جیسا کہ امام بخاریؒ نے یہی بات ثابت کی ہے۔ علاوہ ازیں اس کی موید یہ حدیث بھی ہے ۔
لا تحزئ صلاة لا يقرأ فيها بفاتحة الكتاب
”ایسی نماز کفایت نہیں کرتی جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے۔ “

ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے

➊ مسیئ الصلاۃ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:
ثم افعل ذلك فى في صلاتك كلها
[بخاري: 757]
”پھر تم اپنی بقیہ پوری نماز میں اسی طرح کرو۔“
➋ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے اور دوسری دو رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔
[أحمد: 295/5 ، بخاري: 759 ، كتاب الأذان: باب القراءة فى الظهر، مسلم: كتاب الصلاة ، نسائي: 128/2]
اور ہمیں آپ صلى الله عليه وسلم نے حکم دیا ہے کہ :
صلوا كما رايتموني أصلى
[بخاري: 6008 ، كتاب الأذان: باب الأذان للمسافر إذا كانوا جماعة]
”اسی طرح نماز پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے دیکھو۔“
(ابن حزمؒ ) سورہ فاتحہ ہر نماز کی ہر رکعت میں فرض ہے۔
[المحلى بالآثار: 265/2]
(ابن حجرؒ ، نوویؒ) جمہور کے نزدیک ہر رکعت میں سورہ فاتحہ فرض ہے ۔
[فتح البارى: 487/2 ، شرح مسلم: 340/2]
(شوکانیؒ) اس کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار: 33/2 ، السيل الجرار: 214/1]
(قرطبیؒ) فاتحہ ہر رکعت میں متعین ہے۔
[تفسير قرطبي: 119/1]
◈ اکثر علماء نے سورہ فاتحہ کو نماز کا رکن قرار دیا ہے۔
(احمدؒ، مالکؒ ، شافعیؒ) سورہ فاتحہ نماز کا رکن ہے۔
[المغنى: 146/2]
(ابن حجرؒ ) سورہ فاتحہ نماز کا رکن ہے۔
[فتح البارى: 282/2-283]
(عبد الرحمٰن مبارکپوریؒ) رکنیت کا قول ہی راجح ہے۔
[تحفة الأحوذى: 71/1]
(صدیق حسن خانؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[الروضة الندية: 245/1]
(ابن قدامہؒ ) سورہ فاتحہ رکن ہے۔
[المغنى: 146/2]

خواہ کوئی مقتدی ہی ہو

➊ گذشتہ بیان کردہ فاتحہ کی رکنیت کے تمام دلائل اس کا ثبوت ہیں مثلاً حديث:
لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
میں عموم ہے کہ کوئی بھی نماز ہو اور کوئی بھی شخص ہو خواہ مقتدی ہو یا امام ہو یا منفرد ہو ، کسی کی کوئی نماز فاتحہ کے بغیر نہیں ہوتی۔
➋ امام بخاریؒ نے باب قائم کیا ہے کہ :
باب وجوب القراءة للإمام والماموم فى الصلوات كلها فى الحضر والسفـر ومـا يـجهر فيها وما يخافت
”امام اور مقتدی کے لیے حضر و سفر ہر حال میں سری اور جہری سب نمازوں میں قراءت کے وجوب کا بیان۔“
➌ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نماز فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرائت کی تو قرائت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بوجھل ہو گئی۔ فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لعلكم تقرء ون خلف إمامكم
”شاید تم لوگ امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو۔“ ہم نے کہا ”ہاں“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها
”ایسا نہ کیا کرو سوائے سورہ فاتحہ کے کیونکہ جس نے اسے نہ پڑھا اس کی کوئی نماز نہیں ۔ “
[ضعيف: ضعيف ترمذي: 49 ، ضعيف أبو داود: 146 ، ضعيف الجامع: 2082 ، أحمد: 316/5 ، أبو داود: 823 ، كتاب الصلاة باب من ترك القراءة فى صلاته بأم الكتاب ، ترمذي: 311 ، ابن الحارود: 118 ، حاكم 238/1] اور امام ترمذیؒ نے اسے حسن کہا ہے ۔ امام دار قطنیؒ اور امام بغویؒ نے بھی اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ امام بھقیؒ ، امام ابن خزیمہؒ اور امام ابن حبانؒ نے اسے صحیح کہا ہے۔ شیخ احمد شاکرؒ نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔ [شرح الترمذي: 117/2] ، البته شخ محمد صبحی حسن حلاق نے اسے ضعیف کہا ہے۔ [التعليق على السيل الجرار: 463/1]
➍ جب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ روایت بیان کی:
من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهى خداج
تو راوی ابو سائبؒ نے کہا اے ابو ہریرہ رضی الله عنہ !
إنى أحيانا أكون وراء الامام
”میں بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتا ہوں۔“
تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب میں کہا کہ :
اقرأ بها فى نفسك يا فارسي
[موطا: 84/1 ، كتاب النداء للصلاة: باب القراءة خلف الإمام فيما لا يجهر فيه بالقراءة ، مسلم: 39 -40 ، أبو داود: 812 ، ترمذي: 247 ، نسائي: 135/2 ، أحمد: 285/2 ، دارقطني: 312/1 ، شرح معاني الآثار: 216/1 ، ابن خزيمة: 489]
”اے فارسی ! اسے اپنے نفس میں (یعنی بغیر آواز نکالے) پڑھ لیا کرو۔“
➎ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں:
لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب خلف الامام
[بيهقي فى كتاب القراءة: 56 ، اس كي سند كو مولانا انور شاه كشميري نے صحيح قرار ديا هے۔ فص الختام: 147]
”اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہ پڑھی ۔“
➏ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
اقرأ خلف الإمام بفاتحة الكتاب
”امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھو۔ “
[بيهقي فى كتاب القراءة 77 ، وفي السنن الكبرى: 169/2 ، امام بيهقي نے اسے صحيح كها هے جيسا كه كنز ميں هے رقم: 22966]
(شافعیؒ) ہر رکعت میں امام مقتدی اور منفرد سب کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے خواہ سری نماز ہو یا جہری ہو ، فرض ہو یا نفل ہو۔
(مالکؒ، احمدؒ ) جہری نمازوں میں نہیں بلکہ صرف سری نمازوں میں سورہ فاتحہ پڑھی جائے گی۔
(احناف) مقتدی قراءت نہیں کرے گا خواہ سری نماز ہو یا جہری ہو۔
[شرح المهذب: 323/3 ، المبسوط: 19/1 ، الأم: 210/1 ، الهداية: 48/1 ، الكافي لابن عبدالبر: ص/ 40 ، كشاف التماع: 340/1 ، بدلية المعتمد: 119/1 ، معنى المحتاج: 156/1 ، المغنى: 376/1 ، الشرح الصغير: 309/1]
احناف کے دلائل حسب ذیل ہیں :
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَانْصِتُوا
[الأعراف: 204]
”اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش ہو جاؤ.“
➋ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
و إذا قرأ فانصتوا
[مسلم: 404 ، كتاب الصلاة: باب التشهد فى الصلاة ، أحمد: 394/4 ، أبو داود: 973 ، نسائي: 241/2 ، دارمي: 315/1 ، دارقطني: 330/1 ، بيهقى: 140/2]
”جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو۔“
➌ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من كان له إمام فقراءة الإمام له قراء ة
[حسن: إرواء الغليل: 500 ، ابن ماجة: 850 ، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها: باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا ، شرح معاني الآثار: 217/1 ، دار قطني: 331/1]
”جس کے آگے امام ہو تو امام کی قراءت ہی اس کی قراءت ہے ۔“
یاد رہے کہ یہ تینوں دلائل عام ہیں کہ جن کی تخصیص متعدد دیگر احادیث سے ہو جاتی ہے مثلاً:
لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب
ولا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
[السيل الجرار: 215/1 ، تفسير قرطبي: 118/1 ، مجموع الفتاوى لابن تيمية: 265/23]
امام احمد کی دلیل یہ حدیث ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جہری نماز سے فراغت کے بعد پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قراءت کی ہے؟ ایک آدمی نے اعتراف کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنى أقول ما لي أنازع القرآن
[صحيح: صحيح أبو داود: 736 ، مؤطا: 86/1 ، كتاب الصلاة: باب من كره القراءة بفاتحة الكتاب إذا جهر الإمام ، أحمد: 284/2 ، أبو داود: 826 ، ترمذي: 311 ، نسائي: 140/2 ، ابن ماجة: 848 ، بيهقى: 157/2 ، عبدالرزاق: 2795]
”میں کہتا ہوں کہ مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں قرآن کے ساتھ جھگڑ رہا ہوں۔ “
راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله فيما جهر فيه بالقراءة ”صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہری نمازوں میں قراءت سے باز آ گئے ۔“
اس حدیث کی وضاحت راوی حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے خود فرما دی ہے کہ جب کسی شخص نے ان سے سوال کیا کہ ”میں بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتا ہوں“ تو انہوں نے جواب میں کہا:
اقرأ بها فى نفسك يا فارسي
[مسلم: 39-40]
”اے فارسی! اسے اپنے نفس میں پڑھ لیا کرو۔“
معلوم ہوا کہ امام کے پیچھے جہری نمازوں میں صحابہ آواز نکال کر پڑھنے سے باز آ گئے تھے جبکہ ہلکی آواز سے فاتحہ پڑھتے تھے۔
(راجح) امام شافعیؒ کا موقف راجح ہے۔
(خطابیؒ ) امام کے پیچھے فاتحہ کی قراءت واجب ہے خواہ امام جہری قراءت کر رہا ہو یا سری ۔
[معالم السنن: 205/1]
(قرطبیؒ) امام شافعیؒ کے قول کو ترجیح حاصل ہے ۔
[تفسير قرطبي: 119/1]
(شوکانیؒ ) حق یہی ہے کہ امام کے پیچھے بھی قراءت (فاتحہ ) واجب ہے۔
[نيل الأوطار: 39/1]
(عبد الرحمٰن مبارکپوریؒ) امام کے پیچھے فاتحہ کی قراءت تمام نمازوں میں واجب ہے خواہ سری ہوں یا جہری ہوں۔
[تحفة الأحوذي: 240/2]
(ابن حزمؒ ) امام اور مقتدی دونوں پر فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔
[المحلى بالآثار: 265/2]
(عبدالحی لکھنوی حنفیؒ) کسی صحیح مرفوع حدیث میں امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کی ممانعت مروی نہیں ہے اگر کوئی ایسی حدیث ہے تو یا اس کی کوئی اصل نہیں یا وہ صحیح نہیں ہے۔
[التعليق الممجد: 101]
(ابن بازؒ) جہری نماز میں بھی مقتدی پر فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔
[الفتاوى الإسلامية: 235/1]

جہری نمازوں میں امام کے پیچھے فاتحہ کے علاوہ قراءت قرآن

جائز نہیں البتہ سری نمازوں میں جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہری نماز کے متعلق فرمایا:
لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب
”سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھو ۔“
اور سری نماز کے متعلق حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر پڑھائی تو ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سورت سبح اسم ربك الاعلي کی قراءت کرنے لگا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم میں سے کون پڑھ رہا تھا؟ اس آدمی نے کہا ”میں“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: لقد ظننت أن بعضكم خالجنيها
”بے شک میں نے یہ گمان کیا کہ تم میں سے کوئی مجھ سے جھگڑ رہا ہے ۔“
[مسلم: 398 ، كتاب الصلاة: باب نهى الماموم عن جهره بالقراءة خلف إمامه ، أبو داود: 829 ، نسائي: 140/2 ، بخاري فى جزء القراءة: 91 ، أحمد: 426/4 ، ابن حبان: 1845 ، دار قطني: 405/1 ، بيهقي: 162/2]
محل شاہد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو قراءت سے منع نہیں فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ سری نمازوں میں امام کے پیچھے فاتحہ کے بعد صحابہ کوئی سورت پڑھ لیتے تھے اور ایسا کرنا جائز و مباح ہے۔
[تفصيل كے ليے ديكهيے: نيل الأوطار: 44/2 ، شرح مسلم للنووي: 346/2]
◈ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مقتدی کو جہری نمازوں میں امام کے سکتوں کے وقفوں میں فاتحہ کی قراءت کرنی چاہیے جیسا کہ بعض آثار صحابہ بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ یہ عمل ضروری نہیں ہے مقصود سورہ فاتحہ پڑھنا ہے اسے کسی طرح بھی پڑھ لیا جائے کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے جب امام کے پیچھے فاتحہ کی قراءت کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
اقرأ بها فى نفسك يا فارسي
[مسلم: 39-40]
”اے فارسی ! اسے اپنے نفس میں پڑھ لو ۔ “
اور امام بیہقی نے [كتاب القراءة خلف الامام] میں یہ لفظ نقل کیے ہیں کہ سائل نے پوچھا:
فكيف أصنع إذا جهر الإمام؟
”جب امام جہری قراءت کرے تو میں کیا کروں؟“
اس پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اقرأ بها فى نفسك
”اسے اپنے نفس میں پڑھ لو۔“
معلوم ہوا کہ سورہ فاتحہ کو کسی حال میں بھی نہیں چھوڑنا چاہیے خواہ امام کے ساتھ پڑھے ، پہلے پڑھے یا بعد میں پڑھے۔
[تحفة الأحوذي: 248/2]
◈ مسئلہ فاتحہ خلف الامام کی مزید تفصیل و توضیح کے لیے مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ مفید ہے۔
خير الكلام فى القراءة خلف الإمام للإمام بخارىؒ
كتاب القراءة خلف الإمام للبيهقيؒ
تحقيق الكلام فى وجوب القراءة خلف الإمام للشيخ عبدالرحمن مباركپوريؒ
أبكار المنن فى نقد آثار السنن للشيخ عبدالرحمن مباركپوريؒ
جزء الصلاة للشيخ محمد صبحي حسن حلاقؒ

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے