روشن خیالی اور ہامان کی فکر
ہامان، جرمنی میں روشن خیالی کی تحریک Aufklärung کے خلاف اٹھنے والی تحریک Sturm und Drang کا نمایاں فلسفی تھا۔ وہ معروف فلسفی ہرڈر کا استاد تھا، اور ہرڈر نے ہی گوئٹے کو ہامان کے خیالات سے متعارف کرایا، جن سے وہ بے حد متاثر ہوا۔ جرمن رومانی تحریک پر ہامان کے اثرات کا اعتراف گوئٹے نے اپنی کتاب Dichtung und Drang میں بھی کیا ہے۔
ہامان، ہرڈر، گوئٹے اور جیکوبی سبھی روشن خیالی کے اس تصور کے مخالف تھے کہ عقل خود مختار (Self Sufficient) اور مطلق ہے اور اسے ہی مذہب، اخلاقیات اور معاشرتی مظاہر کو پرکھنے کا واحد معیار مانا جانا چاہیے۔
عقل کی مطلقیت کے خلاف ہامان کا مؤقف
یہ وہ دور تھا جب مغربی فلسفے میں عقل کو ہر چیز پر فوقیت حاصل تھی۔ ہامان نے اس کے خلاف موقف اختیار کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ عقل خود ایک سماجی اور ثقافتی تشکیل ہے، اور اس کی تشکیل میں زبان کا بنیادی کردار ہے۔ اس لیے مذہب اور اخلاق کو پرکھنے کے لیے اسے قطعی معیار ماننا غلط ہوگا۔ زبان کے اس کردار کو وٹگنسٹائن سے بہت پہلے ہامان نے اجاگر کیا تھا۔
ہامان کی فکری تبدیلی اور فلسفہ
ہامان نوجوانی میں ایک سفارتی مشن پر لندن گیا، لیکن وہاں کی ناکامی اور روسی سفارتی عملے کے ہتک آمیز رویے نے اسے مایوسی اور ڈیپریشن میں مبتلا کر دیا۔ اس کا نتیجہ بے راہ روی میں نکلا، مگر جلد ہی اس نے خود کو ان تمام خرافات سے الگ کر لیا اور گہری فکری غور و فکر میں مصروف ہوگیا۔
اس کے فلسفے میں فطرت اور مافوق الفطرت کے درمیان حد ختم ہو جاتی ہے۔ وہ فطرت کو خدا کی زبان قرار دیتا ہے اور اشیاء و مظاہرِ کائنات کو الوہی علامات سمجھتا ہے۔ وہ کہتا ہے:
"کیا گھاس کا ایک تنکا ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ خدا موجود ہے؟ تو پھر انسان کے چھوٹے سے چھوٹے اعمال بھی اسی طرف اشارہ نہیں کرتے؟”
اس کے نزدیک فطرت اور تاریخ خدا کے دو عظیم تبصرے ہیں اور ہمیں ان کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ خدا انسان کے خیالات اور اعمال میں شامل ہوتا ہے اور اسی ذریعے سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔
عقل اور ایمان پر ہامان کی تنقید
روشن خیالی کی تحریک کا نظریہ تھا کہ انسان خود شعور (Self-conscious) ہے اور یہ شعور محض عقل کی بدولت ہے۔ لیکن ہامان اس خیال کو ناقص قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ:
"یہ علم کہ میں اصل میں کیا ہوں، میں خود نہیں جانتا، بلکہ خدا جانتا ہے۔”
اس کے مطابق عقل، چونکہ پیدا کردہ ہے، اس لیے یہ خدا پر حکم نہیں لگا سکتی۔
ہامان نے 27 جولائی 1759ء کو کانٹ کو ایک اہم خط لکھا، جس میں ایمان پر عقل کے حملوں کی شدید مزاحمت کی۔ اس نے ڈیوڈ ہیوم کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ:
"اگر انسانی عقل چھوٹی چھوٹی چیزوں کا اثبات نہیں کر سکتی تو خدا جیسی عظیم ہستی کا کیسے کرے گی؟”
ہامان کا یہ مؤقف کانٹ کے فلسفے سے مختلف تھا۔ کانٹ نے "تنقید عقل محض” میں وضاحت کی کہ عقل جب مابعدالطبیعیاتی حقائق پر غور کرتی ہے تو یہ اضداد (Antinomies) میں الجھ جاتی ہے۔ تاہم، کانٹ عقل کو خود مختار سمجھتا تھا، جبکہ ہامان اس کی مطلقیت کو چیلنج کرتا تھا۔
ایمان: محض عقیدہ نہیں بلکہ ایک تجربہ
ہامان کا کہنا تھا کہ ایمان (Faith) محض مان لینا (To believe) نہیں بلکہ ایک تجربہ ہے۔ اس لیے ایمان بھی ایک طرح کا علم ہے، لیکن ایک خاص قسم کا۔ وہ عقل کے ذریعے ایمان کو رد کرنے کے نظریے کا سخت ناقد تھا اور استدلال پیش کرتا تھا کہ عقل کا دائرہ محدود ہے اور یہ مابعدالطبیعیاتی سچائیوں کا احاطہ نہیں کر سکتی۔
ہامان کا تصورِ آرٹ
شیلنگ کی طرح، ہامان بھی یہ سمجھتا تھا کہ حقیقت کے ادراک کا ایک ذریعہ آرٹ بھی ہے۔ اس کا اثر شیلنگ کے آرٹ کے تصورات پر بھی نمایاں ہے۔ اپنی کتاب Aesthetica in nuce میں ہامان نے آرٹ کے مابعدالطبیعیاتی پہلوؤں پر زور دیا اور کہا کہ آرٹ کا مقصد محض حسی لذت نہیں بلکہ بلند اخلاقی اقدار اور مابعدالطبیعیاتی سچائیوں کا اظہار ہے۔
ہامان کی میٹا کریٹک (Metacritic) اور عقل پر تنقید
ہامان کا ایک بڑا علمی کارنامہ اس کی کتاب Metacritic ہے، جس میں اس نے کانٹ کے انتقادی فلسفے پر تنقید کی۔ کانٹ نے عقل کو حتمی معیار کے طور پر پیش کیا تھا، لیکن ہامان نے اس پر مزید تنقید کی اور کہا کہ:
"اگر عقل ہر چیز پر تنقید کر سکتی ہے تو خود عقل پر بھی تنقید ہونی چاہیے۔”
اس نے یہ بھی کہا کہ عقل آفاقی (Universal) نہیں بلکہ مخصوص حالات اور ثقافتوں کی پیداوار ہے، اور یہ ہر دور میں بدلتی رہتی ہے۔ کانٹ عقل کو مطلق مانتا تھا، جبکہ ہامان اسے نسبتی (Relative) قرار دیتا تھا۔
ہامان، کانٹ اور زبان کا کردار
ہامان کے مطابق کانٹ کے فلسفے کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس نے حسی ادراک اور فہم کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دیا، لیکن ان کے ربط کی وضاحت نہیں کی۔ ہامان کہتا تھا کہ اس ثنویت (Dualism) کو ختم کرنے کے لیے زبان کلیدی کردار ادا کرتی ہے، کیونکہ زبان میں ایک طرف حسی ادراک شامل ہوتا ہے اور دوسری طرف فہم کے معانی۔
نتیجہ
ہامان نے روشن خیالی کی تحریک میں عقل کی مطلقیت کے خلاف ایک مضبوط فکری مؤقف پیش کیا۔ اس نے ثابت کیا کہ عقل خود ساختہ اور محدود ہے، جبکہ مذہب، تاریخ، فطرت اور زبان وہ ذرائع ہیں جو انسان کو حقیقت کے قریب لے جا سکتے ہیں۔ اس کی فکر نے نہ صرف جرمن رومانی تحریک بلکہ جدید فلسفے، وجودیت، اور زبان کے فلسفے پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔