گندی نالیوں کے پانی سے دھلے کپڑوں کے شرعی احکام
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الطہارۃ، جلد 1، صفحہ 36-37

سوال

قصبہ کلاس والا میں گندی نالیاں جوہڑوں میں گرتی ہیں، جو کہ چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں اور جلدی خراب ہو جاتے ہیں۔ ان جوہڑوں میں دھوبی کپڑے دھوتے ہیں، اور یہی کپڑے لوگ، بشمول نمازی، استعمال کرتے ہیں۔ اس معاملے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

حدیث مبارکہ سے رہنمائی:

حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے "بضاعہ کنویں” کے پانی کے متعلق پوچھا گیا، جس میں گندگی پڑتی تھی، کہ کیا اس پانی سے وضو کیا جا سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

"الماء طهور لا ينجسه شيء”

ترجمہ: "پانی پاک کرنے والا ہے، اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی، جب تک کہ اس میں پلیدی کا اثر ظاہر نہ ہو۔”

  • یعنی جب تک پانی کا رنگ، بو، یا مزہ ناپاکی کی وجہ سے تبدیل نہ ہو، وہ پاک رہتا ہے۔

جوہڑ کے پانی کا حکم:

  • اگر جوہڑ کے پانی میں گندگی شامل ہونے کے بعد:
    • پانی کا رنگ، بو، یا مزہ تبدیل ہو جائے، تو وہ پانی ناپاک اور ناقابلِ استعمال ہے۔
    • لیکن اگر پانی کے اوصاف (رنگ، بو، مزہ) برقرار رہیں اور پلیدی کا اثر ظاہر نہ ہو، تو وہ پانی پاک ہے اور استعمال کیا جا سکتا ہے۔

دھوبیوں کے دھلے کپڑے:

  • اگر دھوبی جوہڑ کے پانی سے کپڑے دھوتے ہیں اور پانی میں ناپاکی کا اثر (رنگ، بو، مزہ) ظاہر نہیں ہوتا، تو ان کپڑوں کا استعمال نماز اور دیگر عبادات کے لیے جائز ہے۔
  • تاہم، اگر یہ ثابت ہو جائے کہ جوہڑ کا پانی ناپاک ہے، تو ان کپڑوں کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔

خلاصہ:

جوہڑ کے پانی کا استعمال اور دھوبیوں کے دھلے کپڑے شرعاً اس وقت تک پاک تصور کیے جائیں گے جب تک پانی کا رنگ، بو، یا مزہ ناپاکی کی وجہ سے تبدیل نہ ہو۔ اگر گندگی کی وجہ سے پانی کے اوصاف متاثر ہو جائیں تو وہ پانی اور اس سے دھلے کپڑے ناپاک ہوں گے اور استعمال کے قابل نہیں رہیں گے۔

حوالہ: الاعتصام جلد نمبر 20، شمارہ 7، الجواب صحیح: علی محمد سعیدی، جامعہ سعیدیہ، خانیوال مغربی پاکستان

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے