گستاخ رسول عقب ابن ابی لھب کے شیر نے پرخچے اڑا دیئے
ابن عساکر میں ہے کہ ابولہب اور اس کا بیٹا عتبہ شام کے سفر کی تیاریاں کرنے لگے اس کے بیٹے نے کہا سفر میں جانے سے پہلے ذرا ایک مرتبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کو ان کے سامنے گالیاں تو دے آؤں چنانچہ یہ آیا اور کہا : اے محمد ! جو قریب ہوا اور اترا اور دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک آگیا، میں تو اس کا منکر ہوں ( چونکہ یہ ناہنجار سخت بے ادب تھا اور بار بار گستاخی سے پیش آتا تھا) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس کیلئے بددعا نکل گئی کہ باری تعالیٰ اپنے کتوں میں سے ایک کتا اس پر مقرر کر دے، یہ جب لوٹ کر اپنے باپ کے پاس آیا اور ساری باتیں کہہ سنائیں تو اس نے کہا بیٹا! اب مجھے تو تیری جان کا اندیشہ ہو گیا اس کی دعا رد نہ جائے گی اس کے بعد یہ قافلہ یہاں سے روانہ ہوا شام کی سرزمین میں ایک راہب کے عبادت خانے کے پاس پڑاؤ کیا راہب نے ان سے کہا یہاں تو بھیڑیئے اس طرح پھرتے ہیں جیسے بکریوں کے ریوڑ تم یہاں کیوں آئے ؟ ابولہب یہ سن کر ٹٹھک گیا اور تمام قافلے والوں کو جمع کر کے کہا دیکھو میرے بڑھاپے کا حال تمہیں معلوم ہے اور تم جانتے ہو کہ میرے کیسے حقوق تم پر ہیں آج میں تم سے ایک عرض کرتا ہوں امید ہے کہ تم سب اسے قبول کرد گئے بات یہ ہے کہ مدعی نبوت نے میرے جگر گوشے کیلئے بد دعا کی ہے اور مجھے اس کی جان کا خطرہ ہے تم اپنا اسباب اس عبادت خانے کے پاس جمع کرو اور اس پر میرے پیارے بچے کو سلاؤ اور تم سب اس کے اردگرد پہرا دو، لوگوں نے اسے منظور کرلیا یہ اپنے سب جتن کر کے ہوشیار ہے کہ اچانک شیر آیا اور سب کے منہ سونگھنے لگا جب سب کے منہ سونگھ چکا اور گویا جسے تلاش کر رہا تھا اسے نہ پایا تو پچھلے پیروں ہٹ کر بہت زور سے جست کی اور ایک چھلانگ میں اس مچان پہنچ گیا وہاں جا کر اس کا بھی منہ سونگھا اور گویا وہی اس کا مطلوب تھا پھر تو اس نے اس کے پرخچے اڑادیئے، چیر پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑےکر ڈالا اس وقت ابولہب کہنے لگا اس کا تو مجھے پہلے ہی سے یقین تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کے بعد یہ بچ نہیں سکتا۔
تحقیق الحدیث :
اس کی سند محمد بن اسحاق کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
اس کو حاکم نے مستدرك 539/2 میں بیان کیا ہے۔
اس میں عباس بن الفضل راوی ضعیف ہے۔
یہ راویت اپنے تمام طریق کے ساتھ نا قابل حجت ہے ابونعیم فی دلائل النبوة389، 392 رواه ابن حجر في الفتح (39/4) مجمع الزوائد (19/6) ہیثمی کہتے ہیں اس کو طبرانی نے مرسلاً روایت کیا ہے اور اس میں زہیر بن علاء راوی ضعیف ہے۔