گروی چیز سے فائدہ اٹھانا

 

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

الرَّهْنُ يُرْكَبُ بِنَفَقَتِهِ، وَيُشْرَبُ لَبَنُ الدَّرِّ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا
”سواری کا جانور اگر گروی ہے تو بقدر خرچ اس پر سواری کی جا سکتی ہے اور دودھ دینے والے جانور کا دودھ پیا جا سکتا ہے جبکہ وہ گروی مقدہ ہو۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الرَّهْنِ: 2511]
فوائد :
جب ہم کسی سے قرض لیتے ہیں تو اعتماد کے طور پر اس کے پاس کوئی چیز رکھ دیتے ہیں اسے گروی کہا جاتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے اگر گروی رکھی ہوئی چیز پر خرچ کرنا پڑتا ہو تو خرچے کے عوض تھوڑا بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے مثلا کسی نے حقدار کے پاس بطور ضمانت کوئی سواری کرنے یا دودھ دینے والا جانور گروی رکھا ہو تو اسے گھاس یا چارہ ڈال کر اس پر سواری کی جا سکتی ہے یا اس کا دودھ پیا جا سکتا ہے۔ خرچہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا سود ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”اگر کسی کے پاس گروی شدہ بکری ہے تو چارے کی قیمت کے مطابق اس کا دودھ پینے میں کوئی حرج نہیں، قیمت سے زیادہ دودھ حاصل کرنا سود ہے۔“ [فتح الباري : 178/5 ]
بہرحال قرض کے عوض کوئی بھی فائدہ اٹھانا سود ہے۔ شرعی طور پر اس کی اجازت نہیں ہے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا :
”تو ایسی سرزمین (عراق) میں رہتا ہے جہاں سود کی وبا عام ہے لہٰذا اگر تیرا کسی کے ذمے کوئی حق ہے تو اس سے توڑی یا چارے کا گٹھا یا جَو وغیرہ بطور ہدیہ قبول نہ کرنا کیونکہ یہ سود ہے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ: 3814]
اگر کسی قرضہ کے عوض اپنا مکان گروی رکھا ہے تو قرض دار اگر رہائش رکھنا چاہتا ہے تو اس کا کرایہ طے کیا جائے پھر اس کرائے کی رقم کو قرضے سے کم کرتا رہے، اس کے بغیر مکان سے فائدہ اٹھانا صریح سود ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

1