گردے کی پیوند کاری اور خرید وفروخت کا حکم
مجبور آدمی کے لیے گردے کی پیوند کاری کروانا جائز ہے، اگر یہ کسی جائز طریقے کے ذریعے سے ممکن ہو، لیکن کسی انسان کے لیے اپنا گردہ یا جسم کا کوئی عضو بیچناجائز نہیں کیونکہ ایسے شخص کے متعلق وعید آئی ہے جو کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھا جائے۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2227]
اور کسی عضو کی بیع بھی اس میں داخل ہے کیونکہ انسان اپنے جسم کا مالک ہوتا ہے نہ اپنے اعضا ہی کا۔ مزید برآں اس میں یہ خرابی بھی نظر آتی ہے کہ کہیں یہ کام اعضا کی تجارت کا ذریعہ ہی نہ بن جائے، مجھے تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ نیز اس وجہ سے بھی یہ جائز نہیں کہ مبادا یہ غریبوں پر
ظلم کا سبب بن جائے اور مال کے لالچ میں ان کے گردوں کی چوری رواج پکڑ جائے۔ [الفوزان: المنتقى: 60]
مجبور آدمی کے لیے گردے کی پیوند کاری کروانا جائز ہے، اگر یہ کسی جائز طریقے کے ذریعے سے ممکن ہو، لیکن کسی انسان کے لیے اپنا گردہ یا جسم کا کوئی عضو بیچناجائز نہیں کیونکہ ایسے شخص کے متعلق وعید آئی ہے جو کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھا جائے۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2227]
اور کسی عضو کی بیع بھی اس میں داخل ہے کیونکہ انسان اپنے جسم کا مالک ہوتا ہے نہ اپنے اعضا ہی کا۔ مزید برآں اس میں یہ خرابی بھی نظر آتی ہے کہ کہیں یہ کام اعضا کی تجارت کا ذریعہ ہی نہ بن جائے، مجھے تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ نیز اس وجہ سے بھی یہ جائز نہیں کہ مبادا یہ غریبوں پر
ظلم کا سبب بن جائے اور مال کے لالچ میں ان کے گردوں کی چوری رواج پکڑ جائے۔ [الفوزان: المنتقى: 60]