گائے اور بھینس کی حقیقت
أولا گائے:
چونکہ بھینس گائے ہی کی نوع ہے اس لئے پہلے یہ جاننا مناسب ہے کہ گائے کی حقیقت و ماہیت کیا ہے ، تاکہ بھینس کی حقیقت و ماہیت اور دونوں میں یکسانیت سمجھنے میں آسانی ہو ۔
گائے: اردو ، ہندی اور فارسی زبان میں:
گائے: اردو اور ہندی زبان کا لفظ ہے ، جو دنیا میں پائے جانے والے مشہور ماندہ چوپائے پر بولا جاتا ہے ۔ [جامع فيروز اللغات ص1080] ، اور اس کے نر کو بیل کہتے ہیں۔ [جامع فيروز اللغات ، ص 257] اسی طرح سنسکرت میں اسے گئویا کہا جاتا ہے ۔ [جامع فيروز اللغات ، ص 1135 ۔]
جبکہ فارسی زبان میں نر و ماند ہ دونوں کو ”گاؤ“ کہا جاتا ہے ۔ [جامع فيروز اللغات ، ص1080]
گائے عربی زبان میں:
گائے کو عربی زبان میں ”بقر“ کہتے ہیں ، اس کے معنی ومفہوم کا خلاص حسب ذیل ہے:
1 ۔ ”بقر“ اسم جنس ہے ، مذکر و مونث دونوں پر بولا جاتا ہے ، اس میں سے ایک کے لئے ”بقرۃ“ : ”استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کی جمع ”بقرات“ آتی ہے ، پھر مذکر کے لئے ”ثور“ کا لفظ استعمال کیا جانے لگا ۔ چنانچہ علماء لغت عرب لکھتے ہیں:
(البقر) اسم جنس ، و (البقرة) تقع على الذكر والأنثى ، والھاء للإفراد ، والجمع البقرات [المغرب فى ترتيب المعرب ص: 305 تحرير الفاظ التنبيه ص: 102 المطلع على الفاظ المقنع ص: 159 ، المصباح المنير فى غريب اشرح الكبير 57/1 الصاح تاج اللغته وصحاح العربية 2/ 594 ، وعمدة الحفاظ فى تفسير آشرف الالفاظ لاحمد يوسف الحلبي 216/1]
2۔ یہ گھریلو اور وحشی دونوں قسموں کے لئے بولا جاتا ہے ۔ [جمهرة اللغته1/ 322 المحكم والمحيط الاعظم 395/6]
3۔ بقرہ کے نر کو ”ثور“ (بیل) کہا جاتا ہے ۔ [كتاب العين 8/ 232 ، و جمہرة اللغته 424/1 ، و وعمده الحفاظ ۔ ۔ ۔ لاحمد بن يوسف الحلجي 216/1]
4۔ اس کے پچے کو ”عجل“ کہتے ہیں ۔ [الجراثيم 273/2 ، وتہذيب اللغته 113/4]
5۔ اس کے گو شت میں ٹھنڈک اور خشکی ہوتی ہے ۔ [شمس العلوم ود واء كلام العرب من العلوم 589/1]
6 ۔ گائے بڑا طاقتور اور ”کثیر المنفعت“ جانور ہے ۔
علامہ محمد بن موسی کمال الدین دمیری فرماتے ہیں:
والبقر حيوان شديد القوة كثير المنفعة ، خلقه الله ذلولا [حياة الحيوان الكبري 214/1]
گائے ایک بڑا طاقتور اور بہت نفع بخش جانور ہے ، اللہ نے اسے تابع اور ماتحت بنایا ہے ۔
اور علامہ ابوالفتح ابشیہی فرماتے ہیں:
بقر: هو حيوان شديد القوة خلقه الله تعالى المنفعة الإنسان [المستطرف فى كل فن مستطرف ص: 353 ۔ ]
گائے ایک بڑا طاقتور جانور ہے ، اسے اللہ نے انسان کی منفعت کے لئے پیداکیا ہے ۔
7 ۔ اس کی کئی میں ہیں ، ان میں سے ایک قسم بھینس ہے ، جو سب سے بھاری بھرکم اور زیادہ دودھ دینے والی ہے ۔
علامہ کمال الدین دمیری فرماتے ہیں:
وهي أجناس: فمنها الجواميس وهى أكثرها ألبانا وأعظمها أجساما [حياة الحيوان الكبري 214/1]
اس کی کئی اجناس ہیں ، انہی میں سے بھینسیں ہیں ، جو سب سے زیادہ دودھ دینے والی اور سب سے بڑے جسم والی ہیں ۔
اور علامہ ابشیہی فرماتے ہیں:
وهو أنواع: الجواميس وهى أكثر ألبانا وكل حيوان إناثه أرق أصواتا من ذكوره إلا البقر [المستطرف فى كل فن مستطرف ص: 353 ۔ ]
گائے کی کئی انواع ہیں ، بھینسیں ، جو سب سے زیادہ دودھ والی ہیں ، اور ہر جانور کے
ماندوں کی آواز نروں سے باریک ہوتی ہے سوائے گائے کے ۔
8۔ اس کے رنگ کی ہوتے ہیں ۔ [گائے كي رنگت كي تفصيلات كے لئے ملاحظه فرمائيں: المخصص 2/ 266]
”بقر“ وجہ تسمیہ:
علماء لغت ، فقہ اور حدیث و تفسیر نے تصریح فرمائی ہے ”بقر“ کے معنی کھودنے ، پھاڑنے ، کھولنے اور کشادہ کرنے کے ہیں اور ”بقر“ اسی سے مشتق ہے ، اور ”بقر“ کو ”بقر“ اسی لئے کہا گیا ہے کہ وہ زمین کو ”بقر“ کرتا یعنی ہل چلا کر پھاڑتا ہے ، چنانچہ معروف لغوی علامہ ابن منظور افریقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أصل البقر: الشق والفتح والتوسیعتہ ، بقرت الشيء بقراً: فتحتہ ووسعتہ [لسان العرب 74/4 ۔ ]
بقر کے اصلی معنی پھاڑ نے ، کھولنے اور کشادہ کرنے کے ہیں ، بقرت الشيء بقراً یعنی میں نے کسی چیز کو کھولا اور کشادہ کیا ۔
او محمد ملا خسر ورحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(البقر) . . . وسمیت بقراً ؛ لأنها تبقر الأرض بحوافرها أى تشقها والبقر هو الشق [درراحكام شرح غرر الاحكام 176/1]
”البقر: “ ۔ ۔ ۔ کو ”بقر“ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو اپنے کھروں سے بقر کرتی ہے یعنی
پھاڑتی ہے ۔ ”بقر“ کے معنی پھاڑنے کے ہیں ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والبقر يقع على الذكر والأنثي سمیت بقرة لأنها تبقر الأرض أی تشقھا بالحرائة والبقر الشق [المجموع شرح المہذ ب 4/ 539 ، وشرح النووي على مسلم 137/6]
”بقر: “ مذکر و مونث دونوں پر بولا جاتا ہے ، اس کو بقرۃ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ہل چلا کے زمین کو پھاڑتی ہے ، بقر کے معنی پھاڑنے کے ہیں [الوضيع الشرح الجامع الصحيح 414/10 ، عمدة القاري شرح صحيح البخاري 6/ 172 و مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 6/ 140 ، وفيض القدير 1/ 422 و ذخير العقبي فى شرح المجتبي 16/ 154 ، و 108/22 ، والكواكب الدراري فى شرح صحيح البخاري7/6 ، كوثر المعاني الدراري فى كشف خبايا صحيح البخاري 351/12 ۔ ]
اور اسی طرح کئی علماء نے اس بات کی بھی صراحت فرمائی ہے کہ حضرت محمد بن علی بن حسین کو بھی ”باقر“ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے علم کو کھول دیا تھا ، اور اس کی گہرائی میں اتر گئے تھے ۔
چنانچہ علامہ محمد احمد ہروی فرماتے ہیں:
وكان يقال لمحمد بن على بن الحسين: (الباقر) لأنہ بقر العلم وعرف أصله واستنبط فرعه ، وأصل البقر الشق والفتح [تهذيب اللغته 1189 ۔ ]
حضرت محمد بن علی بن حسین کو بھی ”باقر“ اسی لئے کہا جاتا تھا کہ انہوں نے علم کو کھول دیا تھا ، اور اس کے اصل کو جان کر اس سے فرع مستنبط کر لیا تھا ، اور ”بقر“ کا اصلی معنی پھاڑنا اور کھولنا ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ومنها قيل لمحمد بن على بن الحسين بن على بن أبى طالب رضي الله عنهم الباقر لأنه بقر العلم فدخل فيه مدخلا بليغا [تحرير الفاظ التنبيه ص: 102]
”بقر“ ہی کے لفظ سے محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو ”با قر“ کہا جاتا ہے ، کیونکہ انہوں نے علم کو پھاڑ دیا تھا اور اس کی گہرائی میں اتر گئے تھے ۔ [غريب الحديث لابن الجوزي 81/1 ، ومعجم ديوان الأدب 348/1 ، و الصاح تاج اللغة وصحاح العربية 2/ 595 ، ولسان العرب 74/4]
گائے کی جامع تعریف:
متعدد اہل علم نے ”بقرۃ“ کی اصطلاحی تعریف فرمائی ہے ۔ بطور مثال جدید عربی زبان کونسل کی تعریف ملاحظہ فرمائیں:
بقرة: . . . وهو جنس حيوانات من ذوات الظلف ، من فصيلة البقريات ، ويشمل البقر والجاموس ، ويطلق على الذكر والأنثى ، منه الميستأنس الذى
يتخد للبن واللحم ويستخدم للحرث ، ومنه الوحشي ، أنثي الثور {إن الله يأمركم أن تذبحو بقراة [معجم اللغته العربيته المعاصرة 230/1]
گائے: بقریات (زمین پھاڑنے والے جانوروں ) کے گریڈ سے کھر والے حیوانات کی جنس کانام ہے ، جو گائے اور بھینسں دونوں کو شامل ہے ، اور مذکر و مونث دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ اس میں وہ مانوس قسم بھی ہے جسے دودھ اور گو شت کے لئے رکھا جاتا ہے ، اور کھیتی کے لئے استعمال کیا جا تا ہے ، اور ایک قسم وحشی بھی ہے ، یہ بیل کی ماند ہ ہے ۔ اللہ کا ارشاد ہے: (اللہ تعالیٰ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے ) ۔
ثانیاً: بھینس
بھینس اردو ، ہندی اور فارسی زبان میں
بھینس /بھینسا: اردو ، ہندی زبان میں مستعمل لفظ ہے ، جو برصغیر اور دیگر ممالک میں پائے جانے والے مشہور چوپائے پر بولا جاتا ہے ، اور وہ عموماً سیاہ رنگ کا ہوتا ہے ، اس کے مادہ کو بھینس اور نر کو بھینسا کہا جاتا ہے ۔ [جامع فيروز اللغات ، ص 243 ۔ ]
اسی طرح اردو اور ہندی زبان میں بھینس کے بچے کو ”کٹا“ کہتے ہیں ۔ [جامع فيروز الغات ، ص: 992 ۔]
اور فارسی زبان میں بھینس کو ”گاؤ میش“ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ [جامع فيروز اللغات ، ص 1080]
واضح رہے کہ ”گاؤمیش“ دو الفاظ کا مرکب ہے ”گاؤ“ اور ”میش“ ۔
اور گاؤ فارسی زبان کا مؤنث لفظ ہے جس کے معنی ہندی زبان میں مستعمل لفظ گائے اور بیل کے ہیں ۔ [جامع فيروز الملغات ، ص 1080 ۔ تاج العروس 382/23 ، وتكملته المعاجم العربيته 16/9]
جبکہ سنسکرت زبان میں گائے کا ”گئو“ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ [جامع فيروز اللغات ص 1135]
او ”میش“ فارسی لفظ ہے جس کے معنی بھیڑ ، بھیڑی گوسفند یا گوسپند ، مینڈھا ، دنبہ کے ہیں ۔ [جامع فيروز اللغات ، ص1330 ، و 1114 ۔]
مذکور مختلف زبانوں کی تفصیلات سے معلوم ہوا کہ مرکب لفظ ”گاؤمیش“ میں گائے اور بھیڑ کا مرکب معنی شامل ہے ، مزید وضاحت عربی لغات کی روشنی میں آگے آ رہی ہے ۔
بھینس عربی زبان میں:
چونکہ ”گاؤمیش“ ، بھینس (یعنی بھیڑ ، بھیڑی جیسی سیاہ نسل گائے) عجم فارس وغیرہ میں پائی جاتی تھی ، عرب میں یہ نسل متعارف نہ تھی اس لئے اہل عرب اس سے واقف اور مانوس نہ تھے ۔ [چنانچه شيخ متولي شعراوي لكهتے هيں: بهينس گائے سے ملحق هے ، اور اس كا ذكر اس لئے نهيں كيا گيا هے كه عرب كے ماحول ميں موجود نه تهي ۔ تفسير اشعراوي 16 /9992]
بلکہ ایک عرصہ بعد یہ نسل عرب میں پہنچی اور لوگ اس سے متعارف و مانوس ہوئے ۔ اس لئے عرب کے لوگوں نے اس بھیڑ شکل یا بھیڑ حلیہ گائے [اجراثيم ، لابن قتيبه دينوري 253/2] کو جب دیکھا تو آسے ”جاموس“ کا نام دیا ، اسی طرح بسا اوقات ”کاؤمیش“ اور ”کاوماش“ وغیرہ ناموں سے بھی اسے موسوم کیا ۔ [تہذیب اللغتہ 317/10 ، والمحصص ، 224/4 ، وکتاب الحیوان ، 100/1 ، و244/5 ، و 144/7 ، التنبيه والاشرف 307/1]
البتہ ”جاموس“ کا بکثرت استعمال ہوا ۔
جاموس کی وجہ تسمیہ:
مستند عربی قوامیس اور ڈکشنریوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فارسی النسل گاؤمیش (بھینس) کو اہل عرب کے ”جاموس“ نام دینے کی دو بنیادوں میں سے کوئی ایک بنیاد ہے: 1۔ تعریب یا 2۔ اشتقاق
1۔ تعریب:
تعریب کا معنی یہ ہے کہ چونکہ یہ لفظ اصلاً عربی زبان کا نہیں ہے بلکہ دخیل ہے ، اس لئے اہل عرب نے اس کے فارسی نام کو عربی حروف اور الفاظ کے معروف اور ان کی مدد سے اپنی عربی زبان میں کہہ لیا اور اس کانام بنا لیا ، چنانچہ ”گ“ کو ”جیم“ اور ”شین“ کو ”سین“ سے بدل کر قابل نطق تسہیل کرتے ہوئے ”فاعول“ کے وزن پر ”جاموس“ بنا دیا [البصائر و الذخائر128/6] ، جس کی جمع فوائیل کے وزن پر ”جوامیس“ آتی ہے ، اس سلسلہ میں اہل لغت کے اقوال اور ان کی تصریحات ملاحظہ فرمائیں:
علامہ لیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”الجاموس: دخيل ، ویجمع جواميس ، تسميه الفرس: كاوميش [تهذيب اللغة 317/10]
”الجاموس“ دخیل ہے ، اس کی جمع جوامیس آتی ہے ، اسے فارسی ”گاؤمیش“ کہتے ہیں ۔
علامہ صاحب العین حلیل فراہیدی فرماتے ہیں:
الجاموس دخيل تسمية العجم كاؤميش [العين 6 / 60 ، المتحصص 4 / 224 ۔ وشمس العلوم و دواء كلام العرب من العلوم 2 /1164 ۔]
جاموس دخیل ہے ، عجمی لوگ اسے گاؤمیش کہتے ہیں ۔
علامہ ابو نصر جوہری فارابی فرماتے ہیں:
الجاموس: واحد الجواميس ، فارسي معرب [الصحاح تاج اللغته وصحاح العربية 915/3]
جاموس جوامیس کی واحد ، فارسی معرب ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الجواميس معروقة واحدها جاموس فارسي معرب [تحرير الفاظ التنبيه ، ص: 106]
جوامیس (بھینس) معروف ہیں ، اس کا واحد جاموس آتا ہے ، جو کہ فارسی لفظ ہے اسے بعربی بنایا گیا ہے ۔
علامہ محمد بن محمد زبیدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الجاموس: . . . معروف ، معرب كاوميش ، وهى فارسية ، ج الجواميس ، وقد تكلمت به العرب [تاج العروس 513/15 ۔ ]
جاموس: معروف ہے ، جو گاومیش کامعرب ہے ، اور وہ فارسی لفظ ہے ، اس کی جمع جوامیس آتی ہے ، اہل عرب نے بھی اس لفظ کو اپنے کلام میں استعمال کیا ہے ۔
علامہ حسن بن محمد عدوی قرشی حنفی فرماتے ہیں:
”الجاموس: واحد من الجوامیس ، فارسی معرب ، وھو بالفارسیۃ کاؤمیش ، وقد تکلمت بہ العرب“ [العاب الزاخر 78/1]
جاموس: جوامیس کی واحد ہے ، فارسی معرب ہے ، اسے فارسی میں ”گاؤمیش“ کہتے ہیں ، عربوں نے اپنے کلام میں استعمال کیا ہے ۔
علامہ محمد بن ابوبکر رازی فرماتے ہیں:
(الجاموس) واحد (الجواميس) فارسي معرب [مختار الصحاح ص: 60]
جاموس جوامیس کی واحد ، فارسی معرب ہے ۔
علامہ فیروز آبا؎دی فرماتے ہیں:
الجاموس: معرب كاؤميش ، ج: الجواميس ، وهى جاموسة [القاموس المحيط ص: 536]
جاموس (بھینس): ”گاؤمیش“ کا معرب ہے ، اس کی جمع جوامیس آتی ہے ، مونث کو جاموسہ کہتے ہیں ۔
علامہ ابو ہلال عسکری فرماتے ہیں:
والجاموس فارسي معرب ، وقد تكلمت به العرب [التلخيص فى معرفة أسماء الأشياء ص: 370]
جاموس ، فارسی معرب ہے ، عربوں نے اپنی گفتگو میں استعمال کیا ہے ۔
2۔ اشتقاق:
اشتقاق کا معنی یہ ہے کہ جا موس کا لفظ عربی ہے اور کسی عربی زبان کے اصول و مادہ سے نکالا گیا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ”جاموس“ (ج ، م، س) جمس سے مشتق ہے ، اور عربی زبان میں جمس کا لفظ کسی چیز کے جمود اور ٹھوس پن پر دلالت کرتا ہے ، چنانچہ جب اہل عرب اس چوپائے سے متعارف ہوئے تو اس کی ہئیت ، جسامت ، مظبوطی اور کیفیت کو دیکھ کر اسے ”جاموس“ کا نام دے دیا ۔ اس سلسلہ میں اہل لغت وغیرہ کی تصریحات ملاحظہ فرمائیں:
علامہ احمد بن محمد فیومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جمس الودك جموسا ، من باب قعد جمد ، والجاموس نوع من البقر ، كأنه مشتق من ذلك لانه ليس فيه لين البقر فى استعماله فى الحرث والزرع والدياسة [المصباح المنير فى غريب الشرح الكبير 108/1]
”جمس الودک جموسا“ کا معنی ہے گوشت کی چکنائی جم گئی ، ”قعد“ کے باب سے ”جمد“ کے معنی میں ہے ، اور ”الجاموس“ گائے کی ایک قسم ہے ، گویا یہ لفظ اسی سے مشتق ہے ، کیونکہ ہل چلانے ، کاشت کرنے اور دانے کچلنے غیرہ استعمال میں اس میں گائے والی نرمی نہیں ہوتی ۔
امام اسحاق بن منصور الکوسج فرماتے ہیں:
الجاموس نوع من البقر ، كأنه مشتق من ذلك ، لأنه ليس فيه لين البقر فى استعماله فى الحرث والزرع والدياسية [مسائل الإمام احمد و اسحاق بن راهويه 4027/8]
”جاموس“ گائے کی ایک قسم ہے ، گویا وہ ”جمس“ ہی سے مشتق ہے ، کیونکہ ہل چلانے ،
کاشت کرنے اور دانے کچلنے غیرہ استعمال میں اس میں گائے والی نرمی نہیں ہوتی ۔
مذکورہ بالاتفصیل سے واضح ہوا کہ جاموس (بھینس) خواد ”گاؤ میش“ کا معرب ہو یا پھر ”ج ، م ، س“ سے مشتق ہو ، دونوں صورتوں میں وہ گائے سے خارج نہیں ہے ، بلکہ وہ بھی شکل گائے ہے ، جیسا کے ”گاؤ“ اور ”میش“ کی وضاحت سے بھی معلوم ہوتا ہے ۔
اور بعینہ اسی بات کی صراحت معروف معتزلی عالم ابوعثمان جاحظ بصری (وفات: 255ھ) نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ”الحیوان“ میں کئی جگہوں پر فرمائی ہے ، چنانچہ لکھتے ہیں:
والجواميس ھى ضأن البقر ، يقال للجاموس الفارسية: كاوماش [كتاب الحيوان ۔ 244/5 ۔ ]
جوامیس (بھینسیں) بھیڑ گائیں ہیں ، جاموس کو فارسی زبان میں ”گاؤمیش“ کہا جاتا ہے ۔
”بھیڑ گائے“ کہنے سے کسی کے ذہن میں شبہہ نہ پیدا ہو کہ بھینس بھیڑ اور گائے کی نسل ہے ، بلکہ یہ بات محض ظاہری مشابہت اور یکسانیت کی بنا پر ہے ، اس لئے مزید وضاحت کرتے ہوئے اور اس شبہہ کا ازالہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فالجاموس بالفارسية كاوماش ، وتأويله ضأني بقري ، لأنهم وجدوا فيه مشابھة الكبش وكثيرا من مشابھة الثور ، وليس أن الكباش ضربت فى البقر فجاءت بالجواميس [كتاب الحيوان ۔ 100/1]
”جاموس“ (بھینس) فارسی میں گاؤمیش کہلاتا ہے ، جس کا معنی بھیڑ اور گائے جیسا ہے ، کیونکہ انہیں اس میں مینڈھے اور بہت کچھ بیل کی مشابہت نظر آئی ، یہ معنی نہیں ہے کہ
مینڈھے اور گائے کے اختلاط سے ”جوامیس“ (بھینسیں) پیدا ہوئیں ۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ويقولون: ”اشتر مرك“ للنعامة ، على التشبيه بالبعير والطائر ، يريدون تشابه الخلق ، لا على الولادة . ويقولون للجاموس: ”كاوماش“ على أن الجاموس يشبه الكبش والثور ، لا على الولادة ، لأن كاو بقرة ، وماش اسم للضأن . . . قالوا: كاوماش على شبه الجواميس بالضأن ، لأن البقر والضأن لا يقع بينهما تلاقح [كتاب الحيوان 144/7]
”نعامتہ“ کو اشتر مرغ (یا شتر مرغ ) اونٹ اور پرندہ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں ، اس سے ظاہری تخلیق میں مشابہت مراد لیتے ہیں ، نہ کہ ولادت کی بنیاد پر ۔ اور جاموس ” (بھینس) کو ”گاؤمیش“ محض اس لئے کہتے تھے کہ بھینس مینڈھے اور بیل کے مشابہ ہوتی ہے ، نہ کہ پیدائش کی بنا پر ، کیونکہ ”گاؤ“ گائے کو اور ”ماش“ مینڈھے کو کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ چنانچہ بھینسوں کی مینڈھوں سے محض ظاہری شباہت کی بنا پر انہیں ”گاؤمیش“ کہتے تھے ، کیونکہ گائے اور مینڈھے میں جفتی واقع نہیں ہوتی ۔
علامہ ابن قتیبہ دینوری فرماتے ہیں:
”وقد قالوا: أشتر مرك على التشبيه بالبعير والطائر ، لا على الولادة ، كما قالوا: جاموس كاوميش أى بقر وضأن وليس بين البقر والضأن سفاد [الجراثيم ، 247/2 ، و 253/2]
عربوں نے اشتر مرغ (یا شتر مرغ ) اونٹ اور پرندہ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے ، نہ کہ ولادت کی بنیاد پر ۔ اسی طرح گاؤمیش کو ”جاموس“ (گائے اور مینڈھے ) کی ظاہری شباہت کی بنا پر کہا ہے ، کیونکہ گائے اور مینڈھے میں جفتی نہیں ہوتی ۔
خلاصہ کلام اینکہ بھینس اور مینڈھا سے محض ض ظاہری مشابہت ہے ۔
”جاموس“ (بھینس) کی جامع تعریف
(1) معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرہ کی تعریف:
”جاموس: حيوان أهلي من جنس البقر من مزدوجات الأصابع المجترة ، ضخم الجثة ، قرونه محنية إلى الخلف وإلى الداخل ، يرى للحرث ودر اللبن [معجم اللغة العربية المعاصرة 392/1]
بھینس: دوہری انگلیوں (کھر) والے جگالی کرنے والے جانوروں میں سے ، گائے کی جنس کا ایک گھریلو جانور ہے ، جس کا جسم بھاری بھرکم ہوتا ہے، سینگین پیچھے اور اندر کی طرف ٹیڑھی گھومی ہوئی ہوتی ہیں ، اسے کھیتی کرنے اور دودھ دوہنے کے لئے پالا جاتا ہے ۔
(2) علامہ سعید خوری شرتونی لبنانی کی تعریف
الجاموس ضرب من كبار البقر يحب الماء والتمرغ فى الأوحال معرب كاؤميش بالفارسية ، ومعناًًه بقر الماء ، ج جواميس [اقرب الموارد فى فصح العربية والشوارد ، ازسعيدخوري شرتوني لبناني 137/1 ۔ ]
بھینس: بڑی گایوں کی ایک قسم ہے ، جو پانی اور کیچڑ میں لوٹنا پسند کرتی ہے، فارسی لفظ ”گاؤمیش“ کامعرب ہے ، اور اس کا معنی پانی کی گائے ہے ، جمع جوامیس آتی ہے ۔
(3) علامہ محمد علیش مالکی فرماتے ہیں:
جاموس: بقر سود ضخام بطي الحركة يديم المكث فى الماء إن تيسر لہ [منسح الجليل شرح مختصر خليل لمحمد احد عليش 12/2]
بھینس: بھاری بھرکم ، سیاہ ، سست رفتار گائے ہے ، اگر اسے میسر ہو تو تادیر پانی میں ٹھری رہے ۔
(4) علامہ احمد بن احمد زروق رحمہ اللہ بھینس کی جامع تعریف ”گائے“ سے کرتے ہوئے الرسالة لابن أبى زيد القير واني کی شرح میں لکھتے ہیں: ؤ
(والجواميس) بقر سود ضخام صغيرة الأعين طويلة الخراطيم مرفوعة الرءوس إلى قدام بطيئة الحركة قوية جدا لا تكاد تفارق الماء بل ترقد فيه غالب أوقاتها يقال إنما إذا فارقت الماء يوما فأكثر ھزلت رأيناها بمصر وأعمالها [شرح زروق على متن الرسالة 512/1 ، مواہب الجليل فى شرح مختصر خليل لمحمد بن محمد الحطاب الزعيني المالكي 263/2 ، وشرح مختصر خلیل للحزشی 152/2، واسہل المدارک شرح ارشاد السالك فی مذہب امامہ الائمہ مالك ، لابي بکر الکشناوي 388/1]
جوامیس: جاموس کی جمع ہے ، یہ بھاری بھرکم [يهي وجه هے كه موٹاپے اور جسامت كے لئے جاموس بهينس ضرب المثل هے ، چنانچه امام عبد الرحمن بن مهدي رحمه الله نے حفص بن عمر المقري ابوعمر الضرير كو ان كي جسامت كے سبب ”جاموس“ بهينس كا لقب ديا هے ۔ نزهته الألباب فى الألقاب ، از حافظ ابن حجر رحمه الله 160/1 /545 ۔ ] کالی گائیں ہیں ، جن کی آنکھیں چھوٹی اور منہ لمبا ہوتا ہے ، پھر آگے کی طرف اٹھا ہوا ہوتا ہے ، یہ سست رفتار لیکن بہت مضبوط اور طاقتور ہوتی ہیں [بهينس كوالله نے بڑا طاقتور بنايا هے ، بهت كچه تفصيلات اور مثالوں كے لئے ملاحظه فرمائيں: حياة الحيوان الكبري 1 214 و 1/ 264 ، ونہاية الأرب فى فنون الأدب 1/ 368 ، و 10/ 124 ، و 10 / 314 ، المستطرف فى كل فن مستطرف ص: 353] ، پانی سے کم ہی جدا ہوتی ہیں ، بلکہ زیادہ تر پانی ہی میں سوتی ہیں ، اور کہا جا تا ہے کہ اگر یہ ایک دن یا اس سے زیادہ پانی سے علحدہ ہوتی ہیں تو دبلی ہو جاتی ہیں ، ہم نے انہیں مصر اور اعمال مصر میں دیکھا ہے ۔
خلاصہ کلام:
ساری باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ گائے اور بھینس کی تعریف کرتے ہوئے اہل علم نے گائے کی تعریف میں بھینس کو شامل کیا ہے ، اور بھینس کی تعریف میں بصراحت کہا ہے کہ وہ گائے کی جنس سے ہے ، اور ان تصریحات میں ان کا کوئی معارض و مخالف بھی نہیں ہے ۔ لہٰذا اس سے دونوں کی یکسانیت اور اتحاد میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہ جاتا ۔
اطمینان کے لئے مزید چند تصرحیات ملاحظہ فرمائیں:
بقر اسم جنس ہے ، جو عربی گایوں او بھینسوں دونوں کو شامل ہے ۔
علامہ ابن قاسم فرماتے ہیں: ۔
والبقر اسم جنس يشمل العراب والجواميس والذكور والإناث [الاحكام شرح أصول الاحكام لابن قاسم 136/2]
بقر (گائے) اسم جنس ہے ، جو عربی گایوں ، بھینسوں اور اور مذکر ومؤنث سب کو شامل ہے ۔
شیخ عبد الطیف عاشور فرماتے ہیں:
البقر: جنس من فصيلة البقريات ، يشمل الثور والجاموس ، ويطلق على الذكر والأنثي [موسوعته الطير والحيوان فى الحديث النبوي ص: 106]
بقر: بقریات کے گریڈ کی جنس ہے ، بیل اور بھینس دونوں شامل ہے اور مذکر و مونث دونوں پر بولا جاتا ہے ۔
بھینس اور گائے کا حکم اور خاصتیں یکساں ہیں ۔
الجاموس: واحد الجواميس . . . حكمه وخواصه: كالبقر [حياة الحيوان الكبري 1/ 264]
جاموس (بھینس) جوامیس کی واحد ہے ۔ ۔ ۔ اس کا حکم اورخاصیتیں گائے جیسی ہیں ۔
گائے اور بھینس دونوں کے بچھڑوں کو ”عجل“ ہی کہا جاتا ہے ۔
علامہ رشید رضا مصری فرماتے ہیں:
والعجل وله البقرة سواء كان من العراب أو الجواميس [تفسير المنار 173/9 وتفسير المراغی 67/9 ، تفسير حدائق الروح والریحان فى روابی علوم القرآن 155/10]
عجل: (بچھڑا) گائے کے بچے کو کہتے ہیں خواہ عربی ہوں یا بھینسیں ۔