کیا12(بارہ)میل سفر میں نماز قصر کر سکتے ہیں؟

ماخوذ: ماہنامہ الحدیث حضرو

مسافت نماز قصر اور مدت قصر

سوال:

کیا ۱۲(بارہ) میل سفر کی نیت سے گھر سے نکلا جائے تو نماز قصر کر سکتا ہے؟ نیز اگر کسی جگہ پر قیام کی نیت چار دن سے زیادہ ہو تو نماز کو پورا پڑھنا چاہیے یا قصر کرنا چاہئے؟

الجواب:

صحیح مسلم میں ہے کہ
عن يحيى بن يزيد الهنائي قال: سألت أنس بن مالك عن قصر الصلوة ؟ فقال : كان رسول الله ﷺ إذا خرج مسيرة ثلاثة أميال أو ثلاثة فراسخ – شعبة الشاك – صلّى ركعتين
یحیی بن یزید الہنائی سے روایت ہے کہ میں نے انس بن مالک سے نماز قصر کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فرسخ (نو میل) کے لیے نکلتے تو دور کعتیں پڑھتے ۔ تین میل یا تین فرسخ کے بارے میں شعبہ کو شک ہے۔

شک کو دور کرتے ہوئے نومیل کو اختیار کریں جو کہ عام گیارہ میل کے برابر ہے تو ثابت ہوتا ہے کہ کم از کم گیارہ میل کے سفر پر قصر کرنا جائز ہے۔
اگر کسی شخص کی نیت چار دن سے زیادہ ہو تو بھی قصر پڑھے گا تاہم روایت ابن عباس کی رو سے اگر اس کا ارادہ بیس دن یا اس سے زیادہ کے قیام کا ہو تو اسے پوری نماز پڑھنی چاہیے۔ صحیح البخاری میں ہے کہ
صلى الله عن ابن عباس قال : أقام النبي لم تسعة عشر يقصر فنحن إذا سافرنا تسعة عشر قصرنا وإن زدنا أتممنا
ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے (ایک جگہ) انیس دن قیام کیا۔ آپ قصر کرتے رہے۔ پس ہم جب انیس دن (قیام ) کا سفر کرتے تو قصر کرتے اور اگر اس سے زیادہ (قیام) کرتے تو پوری (نماز) پڑھتے ۔
(ح ۱۰۸۰)

اس کے مقابلے میں تین یا چار دن کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل