تشریح اور اجماع: ایک اہم فکری بحث
یونان کے شہر ایتھنز میں ایک مصور نے انگوروں کا ایسا خوبصورت شاہکار تخلیق کیا کہ پرندے حقیقت سمجھ کر ان پر چونچیں مارنے لگے۔ لوگوں نے اس فن پارے کی بے حد تعریف کی، مگر ایک ناقد نے اعتراض کیا کہ مصور کا ہاتھ بنانے کا ہنر کمزور تھا، کیونکہ پرندوں نے اسے نقلی سمجھ لیا تھا۔ اس پر کئی دن تک بحث ہوتی رہی۔
مختلف تشریحات
پہلی تشریح
ایک نقاد نے کہا کہ مصور نے تضادات کے ذریعے اپنے فن کا کمال دکھایا۔ نقلی ہاتھ کو پرندے پہچان گئے، مگر انسان اصل سمجھ بیٹھے، جبکہ نقلی انگوروں کو پرندوں نے اصل مان لیا۔
دوسری تشریح
ایک اور ناقد نے کہا کہ مصور کی تخلیق میں کوئی نقص نہیں، بلکہ یونان میں اس قدر خوبصورت انگور پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے، اس لیے پرندے اپنی جان خطرے میں ڈال کر بھی انہیں کھانے کی کوشش کر رہے تھے۔
تیسری تشریح
ایک اور نظریہ یہ پیش کیا گیا کہ پرندے بار بار چونچ مار کر بدلہ لے رہے تھے کیونکہ انہیں محسوس ہوا کہ مصور نے انہیں دھوکہ دیا ہے۔
چوتھی تشریح
بعض نے کہا کہ اگر پرندے دھوکہ سمجھ گئے تھے تو انہیں ہاتھ پر حملہ کرنا چاہیے تھا، مگر چونکہ ہاتھ بے جان محسوس ہو رہا تھا، اس لیے انہوں نے انگوروں پر ہی حملہ جاری رکھا۔
کیا تشریح کا اختیار کسی کو بھی حاصل ہے؟
یہ ساری تشریحات ایک ہی شاہکار کے بارے میں تھیں، لیکن ہر کسی نے اپنے حساب سے مطلب نکالا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی کلام کی اصل منشا متکلم ہی بتائے گا یا کوئی اور؟
دین کی تشریح اور اجماع کی اہمیت
جب کلام اللہ اور کلامِ رسول ﷺ کی وضاحت کی بات آتی ہے تو کیا کوئی بھی شخص اپنی مرضی کی تاویل کر سکتا ہے؟ ظاہر ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
- دین کی وضاحت ان ہی لوگوں کو کرنی چاہیے جو دین کی روح سے واقف ہوں، یعنی فقہائے عابدین اور صلحائے امت۔
- تشریح میں انسانی عقل ضرور شامل ہوگی، اور خطا کا امکان ہمیشہ رہے گا، مگر اسی امکان کو ختم کرنے کے لیے اسلامی تاریخ میں اجماع کو اہمیت دی گئی ہے۔
- نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ "میری امت کا اجماع کسی غلط بات پر نہیں ہوسکتا”۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب دین کے ماہرین کسی مسئلے پر متفق ہوں، تو وہ فیصلہ غلط نہیں ہو سکتا۔
- حضرت علیؓ نے ایک معاملے پر نبی ﷺ سے سوال کیا کہ اگر کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو اور قرآن و سنت میں صریح حکم نہ ملے تو کیا کیا جائے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: "عبادت گزار فقہاء سے مشورہ کرو اور خود کوئی خاص رائے قائم نہ کرو”
(مجمع الزوائد، 1781)۔
ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت
ماضی میں جب بھی امت نے اجتماعی فہم کو نظر انداز کیا، تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ آج بھی "اسلامی سائنس”, "اسلامی جمہوریت”, "اسلامی معیشت” جیسے تصورات میں غلط تشریحات کی وجہ سے مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور اسلامی تعلیمات کی صحیح تشریح کے لیے مستند علما اور فقہا پر انحصار کریں، نہ کہ اپنی مرضی کے معنی نکالیں۔