کیا پدرسری نظام واقعی ایک تاریخی مسئلہ ہے

ہماری بعض لبرل خواتین اور نان اسلامسٹ علماء کا شکوہ

ہماری بعض لبرل خواتین اور چند نان اسلامسٹ علماء اکثر اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ پدرسری (Patriarchal) ہے، ہماری سوچ، فقہ اور قرآن و حدیث کی تعبیر بھی اسی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ حراری کی کتاب Sapiens کا ہمارے ان لبرلز اور نان اسلامسٹ علماء میں بہت چرچا ہے، لہٰذا اسی کتاب کی روشنی میں چند نکات پیش کیے جا رہے ہیں۔

حراری کا سوال: انسانی معاشرہ ہمیشہ سے پدرسری کیوں رہا؟

حراری اس سوال کے جواب میں سائنس کی جانب سے پیش کیے گئے تین نظریات بیان کرتا ہے:

1. جسمانی قوت کا نظریہ

یہ نظریہ کہتا ہے کہ چونکہ مرد جسمانی طور پر زیادہ طاقتور ہے، اس لیے زرعی معاشرے میں اس کی اہمیت زیادہ رہی۔ کھیتوں میں کام، فصلوں کی نگہداشت اور کاشت جیسے امور کے لیے جسمانی قوت درکار تھی، جو مردوں کے پاس زیادہ تھی۔

لیکن حراری اس پر دو اعتراضات کرتا ہے:

  • اوسطاً مرد عورت سے زیادہ طاقتور ہو سکتا ہے، مگر عورتیں مشقت، بیماری اور تھکن زیادہ برداشت کر سکتی ہیں۔
  • تاریخی طور پر خواتین کو ان کاموں سے محروم رکھا گیا جو جسمانی قوت کے بغیر بھی کیے جا سکتے تھے، جیسے مذہبی پیشوائی (priesthood
  • مزید یہ کہ جسمانی قوت اور سماجی حیثیت میں کوئی براہ راست تعلق نہیں۔ جیسے بوڑھے افراد، جو جسمانی طور پر کمزور ہوتے ہیں، اکثر نوجوانوں سے زیادہ سماجی حیثیت رکھتے ہیں۔

2. جارحیت کا نظریہ

یہ نظریہ کہتا ہے کہ مردوں کی نسبت عورتیں کم جارحانہ ہوتی ہیں، اس لیے مردوں نے جنگیں لڑیں اور طاقت حاصل کر کے معاشرے پر کنٹرول کر لیا۔

حراری اس پر سوال اٹھاتا ہے:

  • اگر جنگیں مردوں نے لڑیں تو کیا جنگوں کی قیادت بھی لازمی طور پر مردوں نے ہی کی؟
  • جیسے کاٹن کے کھیتوں میں کام کرنے والے غلام سیاہ فام تھے، لیکن ان کے مالک سیاہ فام نہیں تھے۔
  • پھر جنگ میں کامیابی صرف جارحیت پر نہیں بلکہ حکمتِ عملی اور چالاکی پر بھی منحصر ہوتی ہے، اور عام طور پر عورتوں کو چالاک سمجھا جاتا ہے۔ تو پھر عورتوں نے غالب پوزیشن کیوں حاصل نہیں کی؟

3. پدرسری جینز (Patriarchal Genes) کا نظریہ

یہ نظریہ ارتقائی اصولوں پر مبنی ہے۔ اس کے مطابق ابتدائی دور میں مردوں کے درمیان یہ مقابلہ تھا کہ زرخیز عورتوں کو حاملہ کون کرے، اور اس کے لیے جسمانی قوت اور جارحیت ضروری تھی۔ دوسری طرف، حاملہ عورت جسمانی طور پر کمزور ہوتی اور اسے اپنی اور بچے کی حفاظت کے لیے کسی مرد کی ضرورت پڑتی۔ اس مسلسل انحصار نے عورتوں کو کمزور کر دیا اور مرد طاقتور بنتے گئے۔

حراری اس نظریے کو بھی مسترد کرتا ہے:

  • اس کے حق میں کوئی سائنسی ثبوت نہیں۔
  • اگر عورتیں واقعی کمزور تھیں تو انھوں نے آپس میں اتحاد کر کے مردوں کے خلاف مزاحمت کیوں نہیں کی؟ جیسا کہ ہاتھیوں کی مادائیں ایک دوسرے کی حفاظت کرتی ہیں۔

اصل سوال: کیا پدرسری نظام ایک حقیقی مسئلہ ہے؟

یہ سوال دراصل ایک خاص فکری پوزیشن (Position-Specific) پر مبنی ہے۔ اگر آپ کی فکر مغربی مساوات کے تصور سے متاثر ہو، تو آپ کو پدرسری نظام ایک بڑا مسئلہ لگے گا۔ لیکن مذہبی تہذیبوں میں یہ سوال کبھی موجود ہی نہیں تھا۔

مغربی فکر کے حامیوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ انسانی تاریخ کو اپنے مخصوص نظریۂ عدل کے پیمانے پر پرکھتے ہیں، گویا یہی عدل کا واحد معیار ہے۔ ان کا خیال ہے کہ غیر مغربی خواتین بھی خود کو مظلوم سمجھتی ہیں، حالانکہ حقیقت میں لاکھوں عورتیں ایسا نہیں سمجھتیں۔

جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آپ کے نظام نے ان خواتین کی ذہن سازی (Conditioning) کر دی ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہی دلیل خود ان مغربی مفکرین کی ذہن سازی پر لاگو نہیں ہو سکتی؟

نتیجہ

حراری خود کسی حتمی جواب تک نہیں پہنچ سکا۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ آیا پدرسری نظام پر سوال اٹھانا ہی درست ہے، یا اصل مسئلہ کچھ اور ہے؟ شاید یہ محض ایک نظریاتی بحث ہے، جسے مغربی فکر کے اثرات نے جنم دیا ہے، اور جو تمام معاشروں پر یکساں طور پر لاگو نہیں ہوتی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1