218۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادوکیا گیا تھا ؟ اس کی دلیل کیا ہے ؟
جواب :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت ایسے ہو گئی کہ آپ اپنی بیویوں کے پاس نہ بھی گئے ہوتے تو سمجھ بیٹھتے کہ گئے ہیں (سفیان نے کہا کہ جب اس طرح کی کیفیت ہو تو یہ جادو کا سخت ترین حملہ ہوتا ہے) پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يَا عَائِشَةُ أَعلمتِ أَنَّ اللَّهَ قد أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ ؟ أتَانِي رَجُلاَنِ فَقَعَدَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي وَالآخَرُ عِنْدَ رِجْلَىَّ . فَقَالَ الَّذِي عِنْدَ رَأْسِي لِلَّآخر : مَا بال الرَّجُلِ قَالَ مَطْبُوبٌ . قَالَ : ومَنْ طَبَّهُ : قَالَ: لَبِيدُ بنُ الأعْصَمِ، قَالَ رجل من بني زريق، حليف اليهود، كان منافقا، قال : وفيم ؟ قَالَ: فى مُشْطٍ ومُشَاطَةٍ، قَالَ وأين ؟ قال : فى جف طلعة ذكر تحت راعوفة فى بئر ذوران قالت : فأتي البئر حتي استخرجه فقال : هذه البئر التى أريتها، كَأنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الحِنَّاءِ، وَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ . قال : فاستخرج فقلت : أفلا تنشرت ؟ فقال : أما الله فقد شفاني، وَأكَرِهْ أَنْ أُثِيرَ عَلَى احد من النَّاسِ شَرًّا ”اے عائشہ! کیا تجھے علم ہے کہ میں نے اللہ سے جس بارے میں پوچھا، تھا اس نے مجھے بتا دیا؟ میرے پاس دو آدمی آئے، ایک ان میں سے میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ سر کے پاس بیٹھنے والے نے دوسرے سے کہا: اس آدمی کو کیا (مرض) ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا ہوا ہے، اس نے کہا: اس پر کسی نے جادو کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: یہود کے حلیف، بنوزریق سے تعلق رکھنے والے ایک آدمی لبید بن اعصم نے، جو ایک منافق شخص تھا، پہلے نے پوچھا: کس چیز میں؟ (اس نے جادو کیا ہے) کھجور کے نر کھابے کے کچھ میں، ذروان کے کنویں میں، جس پتھر پر کھڑے ہو کر پانی نکالتے ہیں اس کے نیچے (وہ جادو پڑا ہوا ہے)۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: پھر آپ کنویں پر آئے اور اسے نکال لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی وہ کنواں تھا، جو مجھے دکھایا گیا اور اس کا پانی، منہدی ملے ہوئے پانی کی طرح تھا اور اس کی کھجوریں شیاطین کے سروں کی طرح تھیں۔ پس وہ (جادو والی چیزیں ) نکال لی گئیں۔ میں نے کہا: کیا آپ نے اسے عام نہیں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ نے مجھے جب شفا دے دی ہے تو میں کسی پر شر کو بھڑکانا نہیں چاہتا۔“ [ صحيح البخاري، كتاب الطب، باب هل يستخرج السحر 5432/5 ]
یہ بھی مروی ہے کہ لبید بن اعصم یہودی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر گیارہ گرہوں اور کمان کی ایک تانت میں جادو کیا تھا، جسے اس نے کنویں میں دبا دیا تھا، جسے روان کہا جاتا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے اور تین دن تک یہ بیماری کافی شدید رہی، پھر جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادو کے متعلق خبر دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا طلحہ کو بھیجا، وہ اسے لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر معوذتین پڑھیں، جوں جوں اس کی کوئی گرہ کھلتی جاتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جسم میں خفت اور راحت پاتے تھے۔
یہاں ہم کہتے ہیں کہ واقعی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہوا، جیسا کہ صحیح بخاری میں آیا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ جو بخاری میں آئے وہ صحیح ہے، وہ صحیح ہے، صحیح ہے۔
ذیل میں امام بخاری کے بارے میں کچھ معروضات پیش خدمت ہیں، اللہ ان پر وسیع رحمت کرے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی پیدائش 194ھ میں ہوئی۔ آپ نے قرآن مجید دس سال کی عمر سے قبل ہی حفظ کر لیا تھا، پھر آپ کی نظر چلی گئی۔ آپ کی والدہ اپنے رب سے مسلسل دعا مانگتی رہی تھی کہ اسے خواب میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نظر آئے اور انھوں نے اسے کہا: اللہ نے اس پر دوبارہ نظر کو لوٹا دیا ہے۔
امام بخاری نے دس سال کی عمر سے قبل قرآن حفظ کیا، پھر احادیث حفظ کرنے کا آغاز کیا۔
پھر آپ مکہ گئے، جہاں اللہ کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی ہے اور 18 سال کی عمر میں انھوں نے 15 ہزار احادیث اسانید کے ساتھ زبانی یاد کر لی تھیں۔ ان کو ایک لاکھ میں احادیث اور دو لاکھ غیر صحیح احادیث از برتھیں۔
امام بخاری اس پہاڑ کی مانند ہیں، جیسے پکی اینٹوں سے مارنے والا بھی حرکت نہیں دے سکتا۔ امام بخاری کو اگر ساقط کیا جائے تو سنت کلی طور پر ساقط ہو جائے۔ امام بخاری سنت کے سر ہیں، جب سر ساقط ہو تو سارا جسم ساقط ہو جاتا ہے۔ امام بخاری تفسیر، فقہ اور حدیث کے امام تھے عابد اور زاہد شخصیت تھے اور جس نے امام بخاری کے بارے بدکلامی کی، وہ اللہ کے دین کا ذرا بھی فہم نہیں رکھتا، اگرچہ وہ کتنا بڑا عالم ہو۔
انھوں نے جس سے بھی حدیث لکھی، اسے وہ جانتے تھے کہ وہ کون ہے، اس کی کنیت کیا ہے۔ وہ اس کے متعلق ہر چیز کو جانتے تھے۔
ہر حدیث لکھنے سے قبل انھوں نے غسل کیا، پھر وضو کیا، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر حدیث لکھی۔
انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کے سامنے سے کوئی چیز ہٹا رہے ہیں یا وہ ہر قدم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک کے نشان پر رکھتے ہیں۔
ایک ہزار سے زائد علما سے ملاقات کی اور ان سب سے علم حاصل کیا اور 1080 علما سے حدیث لکھی۔
امام بخاری رحمہ اللہ ہفتے کے دن عید الفطر کی رات سنہ 256ھ میں اللہ سے دعا کرنے کے بعد فوت ہوئے اور ظہر کی نماز کے بعد دفن کیے گئے۔
صلحا میں سے کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تمام صحابہ کو ان کے جنازے کے ساتھ چلتے دیکھا۔ ان کی قبر سے کستوری کی خوشبو آ رہی تھی اور سبھی لوگ اس خوشبو کو پا رہے تھے۔
جب آپ بغداد آئے تھے تو کچھ محدثین نے آپ کا امتحان لینے کی غرض سے سو احادیث لیں اور ان کے متون اور اسانید کو باہم رد و بدل کرنے کے لیے دس آدمیوں کے سپرد کیں اور ہر آدمی کو دس دس احادیث دے کر حکم دیا کہ ان میں رد و بدل کرو۔ پھر جب یہ کام ہو چکا تو ان میں سے ایک آدمی نے پہلی حدیث کے بارے امام بخاری سے پوچھا تو انھوں نے کہا: میں اسے نہیں جانتا، پھر اس نے ان سے دوسری حدیث کے بارے پوچھا تو آپ نے فرمایا : میں اسے نہیں جانتا۔ حتی کہ وہ دس احادیث سے فارغ ہو گیا اور امام بخاری کہتے رہے۔ میں اسے نہیں جانتا۔ پھر دوسرا آدمی اٹھا، اس نے اپنی دس احادیث پیش کیں، اس کے ساتھ بھی پہلے جیسا معاملہ ہوا، یہاں تک کہ وہ دس آدمی اپنی اپنی احادیث پیش کرتے رہے، لیکن امام بخاری نے اس سے زیادہ جواب نہ دیا کہ میں اسے نہیں جانتا۔ لیکن علما کو اس کے باوجود پہچان تھی کہ وہ اس کا علم رکھتے ہیں۔ پھر امام بخاری نے ان میں سے پہلے کو کہا: تیری پہلی حدیث اس طرح سے ہے، دوسری اس طرح سے ہے، اسی طرح سے دس تک بیان کیں، ہر متن کو اس کی سند کے ساتھ اور ہر سند کو اس کے اپنے متن کے ساتھ ملایا۔ پھر باقی نو سے بھی یہی معاملہ کیا۔ سب لوگوں نے ان کے حافظے کا اقرار کیا اور ان کی فضیلت کا یقین کر لیا۔ یہ تھے امام بخاری رحمہ اللہ !
219۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسے جادو کیا جا سکتا ہے، جب کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ؟
جواب :
یہ معاملہ ساری امت کو یہ امر سکھانے کے لیے تھا کہ جادو حق ہے، وہ اللہ کے اذن سے باعث تکلیف ہوتا ہے اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں۔
220۔ وہ جادو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا گیا، وہ آپ پر کیسے اثر انداز ہوا تھا ؟
جواب :
وہ جادو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس طرح اثر انداز ہوا تھا کہ آپ ایک کام نہ بھی کرتے تو ایسے محسوس ہوتا کہ میں نے یہ کام کیا ہے۔
221۔ کیا اس عرصے میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر تھا، وحی کا نزول ہوا تھا ؟
جواب :
نہیں،
الله تعالیٰ کے فضل سے مطلقاً اس عرصے میں وحی کا نزول نہیں ہوا تھا۔
222۔ ہم اس آیت کریمہ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو والی حدیث میں کیسے تطبیق دیں گے ؟
جواب :
وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ
” اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا.“ [المائدة: 67]
اس آیت اور حدیث میں کوئی تعارض نہیں، وہ اس طرح سے کہ یہ آیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جادو سے شفا پا لینے کے بعد نازل ہوئی ہے۔
223۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جادو سے علاج کیسے کیا گیا ؟
جواب :
حضرت جبریل علیہ السلام حاضر ہوئے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ میں دم کیا :
باسم الله أرقيك من كل شيء يؤذيك، من شر كل نفس أو عين حاسد الله يشفيك، باسم الله أرقيك ثلاث مرات
”یعنی اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ کو ہر اس چیز سے دم کرتا ہوں جو آپ کے لیے باعث تکلیف ہے۔ ہر نفس کے شر سے اور ہر حاسد کی آنکھ سے، اللہ آپ کو شفا دے گا۔ اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں۔ تین بار پڑھ کر انھوں نے آپ کو اس کے ساتھ دم کیا۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہما کو بھیجا، وہ دونوں اس کنویں سے جادو کو لے آئے، جس میں وہ دفن تھا، پھر انھوں نے ایک ایک کر کے اس کی تمام گرہیں کھول دیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ جادو کی جگہ اگر معلوم ہو جائے اور اسے نکال لیا جائے تو اس کا اثر باطل ہو جاتا ہے اور ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ اس کی جگہ کا علم ہو جائے۔
لیکن زیادہ مناسب یہی ہے کہ آدمی اپنے آپ کو مسنون دم کے ساتھ دم کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول چیز کے ساتھ اپنی حفاظت کرے۔