کیا نبیﷺ کا کسی عمل سے منع نہ کرنا اس کے جائز ہونے کی دلیل ہے؟
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص ج1ص26

سوال:

کیا کسی چیز کا رسول اللہ ﷺ سے منقول نہ ہونا، اس کے ممنوع یا غیر مشروع ہونے کی دلیل ہے؟ کیا یہ شرعی طور پر ایک معتبر اصول ہے؟ اگر ہاں، تو اس کی کیا دلیل ہے؟

جواب:

الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ آپ پر اور ہم پر رحم فرمائے! شریعتِ مطہرہ میں ایک عظیم اصول اور جلیل القدر قاعدہ پایا جاتا ہے جو تمام بدعات کی تردید کے لیے بنیاد بنتا ہے۔ بدعتی لوگ مختلف بدعات گھڑتے ہیں، اور جب کوئی ان پر اعتراض کرے کہ یہ بدعت ہے، تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ "رسول اللہ ﷺ سے اس کی تردید ثابت نہیں، اور نہ ہی آپ نے اس سے منع فرمایا ہے۔”

یہ استدلال باطل ہے، کیونکہ اگر کسی چیز کا دین میں قوی اسباب (کثرتِ دواعی) کے باوجود ذکر نہ کیا جانا، تو یہ اس کے غیر مشروع ہونے کی دلیل ہے۔ یہ اصول عبادات میں خاص طور پر لاگو ہوتا ہے، کیونکہ تمام عبادات توقیفی ہیں (یعنی صرف وہی عبادات جائز ہیں جو نبی ﷺ سے ثابت ہیں)۔

جبکہ دیگر معاملات میں اصل اباحت ہے، یعنی کسی چیز کو حرام ثابت کرنے کے لیے واضح شرعی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ اصول قرآن، سنت، اجماعِ صحابہ، اور سلف صالحین کے فہم سے ثابت ہے۔

قرآن سے دلیل

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّ‌سولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهو…﴾
(سورۃ الحشر: 7)

ترجمہ:
"جو کچھ رسول تمہیں دیں، اسے لے لو، اور جس چیز سے وہ تم کو روکیں، اس سے رک جاؤ۔”

یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ دین میں وہی کچھ لیا جائے گا جو نبی ﷺ سے ثابت ہو، اور جو چیز آپ نے نہیں کی، وہ دین میں شامل نہیں کی جا سکتی۔

سنت سے دلائل

1. بدعت کا رد کرنے والی حدیث

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو رد”
(صحیح مسلم: 1718، صحیح بخاری: 2697، سنن نسائی: 1578، مسند احمد: 256، ریاض الصالحین: 169)

ترجمہ:
"جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے دین میں نہیں ہے، وہ مردود ہے۔”

یہ حدیث تمام نئی عبادات اور غیر ثابت شدہ اعمال کو باطل قرار دیتی ہے۔

2. حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

"لم أر النبي صلى الله عليه و سلم يستلم من البيت إلا الركنين اليمانيين”
(مشکوٰۃ المصابیح: 227، صحیح بخاری: 1610، صحیح مسلم: 1267)

ترجمہ:
"میں نے نبی ﷺ کو خانہ کعبہ کے صرف دو رکن (رکن یمانی اور حجرِ اسود) کا استلام کرتے دیکھا ہے۔”

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادات میں وہی عمل مشروع ہے جو نبی ﷺ سے ثابت ہو، اور کسی نئے عمل کا اضافہ بدعت شمار ہوگا۔

3. حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت

مہاجر مکی روایت کرتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا:

"بیت اللہ کو دیکھ کر دونوں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں؟”

حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کیا، مگر ایسا نہیں کیا کرتے تھے۔”
(سنن ابی داؤد: 1876، سنن ترمذی: 857، مشکوٰۃ: 227)

4. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول

جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کو جمع کرنے کی تجویز دی، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"كيف أفعل شيئًا لم يفعله رسول الله؟”
(صحیح بخاری: 4986، مشکوٰۃ: 193)

ترجمہ:
"میں وہ کام کیسے کر سکتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا؟”

یہ واضح دلیل ہے کہ جو چیز نبی ﷺ کے عمل سے ثابت نہیں، وہ دین میں شامل نہیں کی جا سکتی، الا یہ کہ کوئی شرعی ضرورت ہو، جیسے قرآن کی جمع۔

سلف صالحین کے اقوال

1. امام مالک رحمہ اللہ:

"رسول اللہ ﷺ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو دین مکمل ہو چکا تھا، اس لیے ہمیں آپ کے آثار کی اتباع کرنی چاہیے، نہ کہ اپنی رائے پر عمل کرنا چاہیے۔”
(الاعتصام للشاطبی: 1/77)

2. امام ابن قیم رحمہ اللہ کا شعر

"فالهجرة الأخرى الى المبعوث بالحق المبين وواضح البرهان”
"فيدور مع قول الرسول وفعله نفياً وإثباتاً بلا روغان”

ترجمہ:
"دوسری ہجرت حق مبین (نبی ﷺ) کی طرف ہے، اور ہمیں رسول ﷺ کے قول و فعل کے مطابق ہی چلنا چاہیے، بغیر کسی کجی کے۔”
(ذُنیۃ ابن القیم، ص 20)

بدعات کی مثالیں جو عدمِ فعل کی وجہ سے مردود ہیں

◈ نماز کے بعد اجتماعی دعا
◈ قبرستان میں فدیہ کی تقسیم اور مخصوص رسومات
◈ نماز جنازہ کے بعد اجتماعی دعا
◈ جنازے کے آگے آگے ذکر کرنا
◈ بعض مخصوص مقامات پر بلند آواز سے ذکر کرنا
◈ سحری کے وقت مساجد میں اعلان کرنا
◈ قضاء عمری اور نماز غائب جیسی غیر ثابت شدہ نمازیں
◈ میلاد النبی ﷺ کے نام پر محافل اور عرس کی رسومات

نتیجہ:

◈ عدمِ نقل، عدمِ حکم کی دلیل ہے، خاص طور پر عبادات میں، کیونکہ دین توقیفی ہے۔
◈ اگر کوئی چیز نبی ﷺ سے ثابت نہ ہو، تو وہ دین میں شامل نہیں کی جا سکتی۔
◈ جو لوگ "نبی ﷺ نے اس سے منع نہیں کیا” جیسے استدلال کرتے ہیں، وہ باطل استدلال کرتے ہیں۔
◈ صحابہ کرام اور ائمہ سلف کا طریقہ یہی تھا کہ جو چیز نبی ﷺ نے نہیں کی، اسے دین میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔

واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1