کیا منفرد دوران نماز امام بن سکتا ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

کیا منفرد دوران نماز امام بن سکتا ہے

منفرد کا دوران نماز امام بن جانا ، اور مقتدیوں اور امام کے درمیان کسی دیوار وغیرہ کا حائل ہو جانا نماز کے لیے نقصان دہ نہیں ہے بلکہ جائز و درست ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے میں نماز ادا کر رہے تھے اور حجرے کی دیوار چھوٹی تھی ، لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم دیکھا تو :
فقام ناس يصلون بصلاته
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے ساتھ ہی نماز ادا کرنے لگے (پھر دوسری رات بھی ایسا ہی ہوا ) ۔“
[بخارى: 731 ، كتاب الأذان: باب صلاة الليل ، مسلم: 781 ، أبو داود: 1447 ، ترمذي: 449 ، نسائي: 198/3]
اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے بھی اس عمل کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
[مسلم: 1104 ، كتاب الصيام: باب النهي عن الوصال فى الصوم ، أحمد: 193/3]
(شوکانیؒ ) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نوافل اور اسی طرح دیگر نمازوں میں منفرد (نمازی) کا امام بن جانا جائز ہے۔
[نيل الأوطار: 399/2]
(بخاریؒ) انہوں نے پہلی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے یہ باب قائم کیا ہے:
إذا كان بين الإمام وبين القوم حائط او سترة
”جب امام اور مقتدیوں کے درمیان کوئی دیوار یا پردہ حائل ہو (تو کچھ قباحت نہیں ) ۔“
اور اس کے تحت نقل کیا ہے کہ امام حسن بصریؒ نے فرمایا: ”اگر امام اور تمہارے درمیان نہر ہو تب بھی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ۔“ اور ابو مجلز تابعیؒ نے فرمایا کہ ”اگر امام اور مقتدی کے درمیان کوئی راستہ یا دیوار حائل ہو تب بھی اقتدا کر سکتا ہے بشرطیکہ امام کی تکبیر سن سکتا ہو اور اس کے بعد امام بخاریؒ نے گذشتہ بیان کردہ حدیث عائشہ بیان کی ہے۔“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے