کیا مسجد میں گمشدگی کا اعلان جائز ہے؟ صحیح احادیث کی روشنی میں وضاحت
یہ اقتباس الشیخ محمد منیر قمر کی کتاب احکام مساجد سے ماخوذ ہے۔

مسجد میں گمشدگی کا اعلان کرنا

آداب و احکامِ مساجد سے ہی ایک مسجد میں گمشدہ بچوں یا دیگر چیزوں کا اعلان کرنا بھی ہے۔ اور ان عرب ممالک میں تو الحمدللہ امنِ عامہ کا یہ عالم ہے کہ مساجد میں ایسے اعلانات کی نوبت ہی نہیں آتی، نہ بچے اٹھائے جاتے ہیں. اور نہ ہی کبھی گمشدگی کا شور سنا گیا ہے۔ حصولِ انصاف میں آسانی اور قانون کی بالادستی والے ملکوں میں ایسا ہی ہوتا ہے. اور ایسا ہی ہونا بھی چاہیے۔ لیکن اسے کیا کہیے کہ کتنے ہی ایسے ممالک ہیں جو امن و امان کی ان بہاروں سے محروم ہیں۔
بہرحال چونکہ ایسے ممالک موجود بلکہ بکثرت موجود ہیں. جہاں بچوں کی گمشدگی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ وہ حقیقی گمشدگی ہو یا بردہ فروشوں کی کارستانیوں کا نتیجہ۔ اور کسی دوسری چیز کا گم ہو جانا تو کہیں بھی اور کسی بھی وقت ممکن ہے۔ لہذا بچوں یا دوسری چیزوں کی گمشدگی کے اعلانات کی ضرورت پیش آہی جاتی ہے۔ جس کے لیے ظاہر ہے کہ مؤثر ترین ذرائعِ ابلاغ و اعلان تو ٹیلی ویژن، ریڈیو، اور روزنامہ اخبارات ہی ہو سکتے ہیں۔
ایسے ہی فوری اقدام کے لیے مقامی طور پر یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ کوئی گاڑی کرائے پر لیں، اور ایک لاؤڈ اسپیکر اس پر فٹ کر کے اس کے ذریعے سارے شہر کے اہم مقامات، کالونیوں، محلوں اور گلی کوچوں میں گمشدگی کا اعلان کریں۔ یہ زیادہ مؤثر اور زود اثر طریقہ ہے، جب کہ ذرائعِ ابلاغ والا طریقہ اگرچہ کچھ تاخیر طلب ہوتا ہے۔ لیکن اتنا ہی وہ وسیع تر پیمانے پر ہو جاتا ہے۔ جب کہ ہمارے برصغیر کے ممالک میں اس راست اقدام کی بجائے ہوتا یہ ہے کہ کسی کی مرغی بھی گم ہو جائے تو تھوڑی دیر ادھر ادھر پوچھ تاچھ کے بعد امامِ مسجد کے پاس جا نکلتے ہیں ۔ کہ میاں جی، قاری صاحب یا مولوی صاحب، ہماری مرغی گم ہو گئی ہے، یا فلاں چیز نہیں مل رہی۔ آپ مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے ذرا اعلان کر دیں۔ اور چیز ملے نہ ملے وہ حضرت اعلان کر کے اس فریضہ سے گویا سبکدوش ہو جاتے ہیں۔
تو آئیے ذرا شریعت سے دریافت کریں کہ ایسے اعلانات جائز بھی ہیں یا نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں ہمیں کیا ہدایات دی ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں اس موضوع کے بارے میں بڑی کھلی کھلی نصوص اور واضح ہدایات خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی موجود ہیں کہ مسجد میں ایسے اعلانات شرعاً درست نہیں ہیں۔

عدمِ جواز کی پہلی دلیل:

اور اس عدمِ جواز کے دلائل میں سے پہلی دلیل وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم کتاب المساجد باب النهي عن نشد الضالة في المسجد میں، ایسے ہی ابوداؤد، ابن ماجہ اور مسند احمد و صحیح ابن حبان میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من سمع رجلا ينشد ضالة فى المسجد فليقل: لا ردها الله عليك فإن المساجد لم تبن لهذا
مسلم مع نووی 541/5/3 – صحیح ابی داؤد 448 – ابن ماجہ 767 – مسند احمد 349/2 – بحوالہ حاشیہ الاحسان 535/4 – صحیح الجامع 303/5/3 – صحیح الترغیب 118 – الاحسان 519/4
جو شخص کسی کو مسجد میں اپنی گمشدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے سنے تو اسے یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے وہ چیز واپس نہ کرے۔ کیونکہ مساجد اس کام کے لیے تو نہیں بنائی گئی ہیں۔

دوسری دلیل:

اور اس مسئلے میں یعنی گمشدہ اشیاء کے اعلانات کے جائز نہ ہونے کی دوسری دلیل وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم شریف کے اسی صفحے پر اگلی ہی حدیث ہے۔ کہ جہاں حدیث مذکور ہے۔ جو کہ نسائی و ابن ماجہ، مصنف عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ، طیالسی اور بیہقی میں بھی ہے۔ اور اس میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
إن رجلا نشد فى المسجد فقال من دعا إلى الجمل الأحمر فقال النبى صلى الله عليه وسلم لا وجدت، إنما بنيت المساجد لما بنيت له
مسلم مع نووی 541/5/3 – صحیح نسائی 693 ولکنہ عن جابر، ابن ماجہ 765 – الاحسان 931/4 – صحیح الترغیب 118/1
ایک آدمی نے مسجد میں اعلان کیا کہ اس کا گمشدہ سرخ اونٹ کسی نے دیکھا ہو، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تو اپنے اونٹ کو نہ پائے، کیونکہ مساجد جس مقصد کے لیے بنائی گئی ہیں، وہ انہی کے لیے ہیں۔
اور مساجد کن مقاصد کے لیے بنائی گئی ہیں؟ ایک اعرابی کے مسجد میں پیشاب کرنے کے واقعے میں اس کی وضاحت بھی خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما رکھی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری، ایسے ہی صحیح مسلم کتاب الطہارہ باب وجوب غسل البول میں، مسند احمد اور ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی اور مسند ابی عوانہ میں حدیث ہے۔ جس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ و حضرت انس رضی اللہ عنہ کے مطابق مساجد کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إنما هي لقراءة القرآن، وذكر الله والصلاة
الاحسان حدیث 1401، 1402 – ابن ماجہ 529 – صحیح الجامع 262/2/1 – ارواء 190-191/1
یہ مسجدیں صرف اللہ کے ذکر، نمازوں کی ادائیگی اور قرآن کریم کی تلاوت کے لیے بنائی جاتی ہیں۔
تو گویا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کے اغراض و مقاصد بیان کر کے اور پہلی دونوں حدیثوں میں اپنے ارشاد و عملِ مبارک ہر دو سے واضح طور پر گمشدگی کے اعلانات کے سلسلے میں حکم امتنا ہی جاری فرما دیا ہوا ہے۔ اور امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں پہلی دونوں حدیثوں کی شرح میں لکھا ہے کہ ان دونوں حدیثوں سے کئی احکام کا استفادہ ہوتا ہے۔ جن میں سے ہی ایک مسجد میں کسی گمشدہ چیز کے اعلان کی ممانعت بھی ہے۔

تیسری دلیل:

اور اس بات کی تیسری دلیل سنن ابن ماجہ کتاب المساجد باب النهي عن انشاد الضوال في المساجد میں مروی حدیث ہے، جس میں راوی حدیث صحابی بیان فرماتے ہیں کہ:
نهى عن النشاد الضالة فى المسجد
سنن ابن ماجہ حدیث 766
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی گمشدہ اشیاء بشمول حیوانات وغیرہ کے مسجد میں اعلان کرنے سے منع فرمایا۔
اور نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے اعلانات سے منع فرمایا، بلکہ ایسا اعلان کرنے والے شخص کے حق میں بددعا فرمائی کہ تیری وہ چیز تجھے کہیں سے بھی نہ ملے۔ اور اعلان سننے والوں کو بھی حکم فرمایا کہ ایسے شخص کے لیے اسی قسم کی بددعا کریں۔ اور امام نووی رحمہ اللہ نے بقول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بددعا کرنا۔ اور اسی کی تلقین فرمانا ایسے شخص کے لیے اس کے فعل کی فوری سزا کے طور پر ہے کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد و حکم کی نافرمانی کیوں کی؟

چوتھی دلیل:

ابوداؤد و ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ و شرح السنہ بغوی اور مسند احمد میں ایک چوتھی دلیل بھی ہے، جس میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں:
نهى عن الشراء والبيع فى المسجد وأن ينشد فيه ضالة وأن ينشد فيه شعر ونهى عن التحلق قبل الصلاة يوم الجمعة
صحیح ابی داؤد 96 – صحیح ترمذی 265 – صحیح نسائی 690 – ابن ماجہ 719، 1133 – ابن خزیمہ 1304 – شرح السنہ 372/2 حسنه الارناؤوط – صحیح الجامع 531673 – فتح الباری 549/1
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں کوئی چیز بیچنے، خریدنے اور کسی گمشدہ چیز کے اعلان کرنے اور مسجد میں (لایعنی قسم کی) شعر گوئی کرنے سے منع فرمایا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن نماز سے پہلے مسجد میں حلقے بنانے سے بھی منع فرمایا۔
اس حدیث میں صرف ایک نہیں بلکہ کئی چیزوں کی ممانعت آگئی ہے۔ جن میں سے مسجد میں خرید و فروخت اور شعر گوئی وغیرہ کا ذکر تو قدرے تفصیل سے آگے چل کر کریں گے۔ سرِ دست یہ ذہن میں رکھیں کہ اس حدیث کی رو سے بھی مسجد میں گمشدہ اشیاء کے اعلانات کی ممانعت آئی ہے۔

پانچویں دلیل:

اور سنن نسائی اور ابن خزیمہ و مستدرک حاکم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی آیا جس نے مسجد میں گمشدہ چیز کا اعلان کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا وجدت
تو اسے نہ پائے۔

چھٹی دلیل:

ترمذی، نسائی اور ابن خزیمہ و مستدرک حاکم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا رأيتم من يبيع أو يبتاع فى المسجد فقولوا لا أربح الله تجارتك وإذا رأيتم من ينشد ضالة فقولوا لا ردها الله عليك
صحیح النسائی 154-155/111
جب تم میں سے کوئی شخص کسی کو مسجد میں خرید و فروخت کرتے دیکھے تو اسے کہے کہ اللہ تیری تجارت کو سودمند و منافع بخش نہ کرے۔ اور جب کوئی شخص کسی کو اپنی گمشدہ چیز کا اعلان کرتے دیکھے، تو کہے کہ اللہ تجھے وہ چیز واپس نہ لوٹائے۔
اور محدثین کرام اور فقہاء عظام نے اپنی تالیفات میں ان احادیث کو نقل کرتے وقت جو جو تبویب کی ہے، اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ان حضرات کے نزدیک بھی ایسے اعلانات ایک ممنوع فعل ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم میں وارد احادیث کی تبویب نووی رحمہ اللہ نے یوں کی ہے:
النهي عن نشد الضالة فى المسجد
مسجد میں کسی گمشدہ چیز کے اعلان کی ممانعت کا بیان
امام ابوداؤد کی تبویب ہے:
باب فى كراهية إنشاد الضالة فى المسجد
مسجد میں کسی گمشدہ چیز کے اعلان کے مکروہ (وممنوع) ہونے کا بیان
امام ترمذی کی تبویب یوں ہے:
باب ما جاء فى كراهية البيع والشراء وإنشاد الضالة فى المسجد
صحیح ترمذی 1066 ابن خزیمہ 1305 – الحاکم 56/2 باب النھی عن البیع فی المسجد 118/1
اور امام نسائی نے یوں کی ہے:
باب النهي عن إنشاد الضالة فى المسجد
اور امام ابن ماجہ نے دو طرح سے تبویب کی ہے:
باب النهي عن إنشاد الضوال فى المساجد
باب النهي عن إنشاد الضالة فى المسجد
اور معنی و مفہوم سبھی ایک ہی ہے۔
انظر اعلام الساجد باحکام المساجد ص 324 طبع اوقات الامارات
یہ تو واضح احادیث کی روشنی میں ایسے اعلانات کی شرعی حیثیت ہوئی۔

مجوزین اور ان کے دلائل

بعض لوگوں نے کچھ لغوی مین میخ نکالتے ہوئے یا بال کی کھال اتارتے ہوئے کہا ہے کہ احادیث میں جو ضالة آیا ہے، اس سے مراد گمشدہ جانور ہیں۔ لہذا اگر بچہ گم ہو جائے تو اس کے اعلان کی ممانعت نہیں ہوگی۔ اور بعض دیگر نے بقاءِ نفس اور احترامِ آدمیت کا نقطہ اٹھاتے ہوئے ایک فقہی اصول الضرورات تبيح المحظورات کا سہارا لیا ہے۔ اور بچوں کے بارے میں اعلان کا جواز کشیدہ کیا ہے۔ اور کچھ حضرات وہ بھی ہیں جو مصالح مرسلہ کے حوالے سے اسے جائز کرتے جا رہے ہیں۔ جب کہ ان تینوں قسم کے لغوی و قیاسی دلائل کا جائزہ لینے پر اور ان کے بغور مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں کوئی جان نہیں ہے۔ بلکہ تنکے کا سہارا لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تو آئیے ذرا ان کے دلائل کا کچھ جائزہ لیں۔ چنانچہ:

پہلی دلیل:

اس سلسلے میں بعض لوگ پہلی دلیل کے طور پر لفظ ضالة کے لغوی معنی و مفہوم کی بحث کر کے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اعلان کی ممانعت کے سلسلے میں احادیث میں جو لفظ ضالة آیا ہے، اس سے مراد گمشدہ جانور ہیں۔ مثلاً اونٹ، بھیڑ اور بکری وغیرہ۔ لہذا احادیث میں جو ممانعت ہے، وہ جانوروں کی گمشدگی کے اعلانات کی ہے۔
جب کہ انسان کا بچہ ایک دوسری چیز ہے۔ اور اگر بچہ گم ہو جائے تو اس کی گمشدگی کا مسجد میں اعلان کرنا جائز ہے۔
جائزہ:
ان کی یہ پہلی دلیل چونکہ محض لغوی بحث ہے۔ لہذا اس کا جائزہ بھی ہم کتبِ لغت کے حوالے سے ہی لیتے ہیں۔ تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ضالة کا معنی صرف گمشدہ حیوانات یا جانور ہی نہیں۔ بلکہ اس کا اطلاق گمشدہ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء پر بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ عربی لغت کی کتابوں میں ”المعجم الوسیط“ میں ضالة کا معنی یوں لکھا ہے:
كل ما ضل أى ضاع وفقد من المحسوسات والمعقولات أو من البهائم حاضة
المعجم الوسط 523/1، طبع ترکی
یعنی ضالہ ہر گمشدہ چیز کو کہتے ہیں، خواہ محسوسات سے تعلق رکھتی ہو یا معقولات سے، یا پھر خاص طور پر یہ لفظ حیوانات کے لیے بولا جاتا ہے۔
تو گویا عموماً تو یہ حیوانات کے لیے ہی ہے۔ لیکن اس کا اطلاق دیگر محسوسات و معقولات پر بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لفظ حکمت و دانائی کی بات کے لیے بھی بولا گیا ہے۔ جیسا کہ سنن ترمذی کتاب العلم باب (119)، اور سنن ابن ماجہ کتاب الزہد باب (15) اور الضعفاء ابن حبان میں حدیث ہے:
الكلمة الحكمة ضالة المؤمن فحيث وجدها فهو أحق لها
ضعیف الترمذی166/4/2 ضعیف ابن ماجہ 343 ۔ ضعیف الجامع 166/4/2۔ مشکوۃ 75/1۔ اس حدیث کی سند تو ضعیف ہے۔
حکمت و دانائی کی بات مومن کی ایک گمشدہ دولت ہے، جہاں بھی وہ پائی جائے وہی اس کا اصل مستحق ہے۔
لیکن ہمیں چونکہ یہاں صرف اس میں وارد لفظ ضالة کے لغوی معنی و مفہوم کی تعیین مطلوب ہے۔ لہذا اس کے لیے اس حدیث سے بھی تائید لی جا سکتی ہے کہ حکمت و دانائی کی بات کے لیے بھی ضالة کا لفظ وارد ہوا ہے۔ تو گویا ”المعجم الوسیط“ میں جو معقولات پر بھی اس لفظ کے اطلاق کی بات آئی ہے۔ تو وہ اس حدیث کے الفاظ سے ثابت بھی ہو گئی۔ اور قرآن کریم کے مطالعے سے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ لفظ یا اس کا فعل کا صیغہ انسانوں کی گمشدگی کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ سورہ سجدہ آیت 10 میں اللہ تعالیٰ نے کفار کا قول نقل فرمایا ہے کہ وہ کہیں گے:
﴿وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ﴾
اور وہ کہنے لگے کہ ہم جب (مرکر) زمین میں گم ہو جائیں گے، تو کیا ہم از سر نو پیدا ہوں گے۔
ایسے ہی سورہ اعراف آیت 37 میں ہے کہ موت کے وقت اللہ کے فرشتے جن منکرینِ حق سے پوچھیں گے کہ کہاں ہیں وہ جنہیں تم اللہ کے علاوہ پکارا کرتے تھے، تو وہ جواب دیں گے:
﴿قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا﴾
وہ کہیں گے کہ وہ ہم سے غائب ہو گئے ہیں۔
ان آیات میں زیر بحث لفظ کے فعل ماضی کے صیغے انسانوں کی گمشدگی کے بارے میں آئے ہیں۔ قرآن کریم میں اس لفظ اور اس کے مشتقات کو کن کن معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس کی تفصیل کے لیے المعجم المفہرس لألفاظ القرآن الكريم (ص 421-424) کا مطالعہ مفید رہے گا۔
اسی طرح مسند احمد جلد چہارم ص 447 اور جلد پنجم کے ص 3، 4، 5 پر ایک حدیث ہے جس میں بنی اسرائیل کے ایک شخص کا واقعہ مذکور ہے۔ جس نے اپنے بچوں کو وصیت کی تھی کہ میرے مرنے کے بعد مجھے آگ میں جلا کر میری راکھ کو ہوا میں اڑا دینا اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتا ہے:
لعلي أضل الله تبارك وتعالى
شاید کہ (ایسا کرنے سے) میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے اوجھل رہ سکوں اور اس کے حضور پیش ہونے سے بچ جاؤں۔
تو گویا قرآن کریم اور احادیث کے یہ استعمالات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ لفظ ”ضل“ انسانی گمشدگی کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کا زیادہ استعمال ذہول یا راہ راست سے بھٹک جانے کے لیے ہے۔ اسی لیے عموماً ان الفاظ کا ترجمہ گمراہ ہو جانے اور گمراہی سے کیا جاتا ہے۔
اس ساری لغوی بحث و تفصیل کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ لغوی دلیل پر مبنی جس بات کو بنیاد بنا کر گمشدہ بچوں کے متعلق مساجد میں اعلان جائز قرار دیا جاتا ہے۔ وہ بات یا دلیل ہی سرے سے بے بنیاد ہے۔ لہذا اس دلیل پر اعتماد کرتے ہوئے ایسے اعلانات کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

دوسری دلیل:

بعض اہل علم نے یہ نقطہ اٹھایا ہے کہ بقا نفس اور احترام آدمیت کے پیش نظر بچوں کی گمشدگی کے اعلان کو جائز ہونا چاہیے۔ اور پھر اسے ایک فقہی قاعدہ کے تحت لانے کی کوشش کی جاتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ:
الضرورات تبيح المحظورات
ضرورتیں ممنوع اشیاء کو بھی مباح و روا کر دیتی ہیں۔
لیکن ان کی یہ دلیل بھی ایسی ہی ہے۔
جائزہ:
پہلی دلیل کی طرح ہی ان کی یہ دوسری دلیل بھی بس ایسی ہی ہے۔ کیونکہ اس قاعدہ کلیہ کی نوبت صرف اسی صورت میں آتی ہے جب اس کا کوئی دوسرا متبادل انتظام نہ ہو سکتا ہو، لیکن ہمارے یہاں عموماً اور غالباً کوئی ایسی جائز ضرورت یا مجبوری نہیں ہوتی۔ جس کی بنا پر ہم احادیث میں وارد صریح حکم امتناعی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس امر کو جائز قرار دیں۔ کیونکہ مسجد سے باہر اس کا معقول بندوبست ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ اس موضوع کو شروع کرتے وقت ہم اس کا طریقہ بلکہ کئی طریقے ذکر کر آئے ہیں۔
ہاں اگر واقعی کوئی ایسی مجبوری ہو اور مسجد سے باہر اس کا انتظام کرنا ناممکن ہو تو، پھر اس اعلان کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ ناممکنات میں سے نہیں ہے۔ لہذا محض پیسے بچانے کے لیے ضرورت کا ہوا کھڑا کر کے ”الضرورات تبيح المحذورات“ کے قاعدہ سے فائدہ اٹھانا اس قاعدہ کا ناجائز استعمال ہوگا۔

تیسری دلیل:

اور ایسے اعلانات کے جواز کے لیے بعض حضرات ایک تیسری دلیل کے طور پر مصالح مرسلہ کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ اور اسی اصطلاح کو سامنے رکھ کر بچوں کی گمشدگی کے اعلان کو جائز قرار دیتے ہیں۔
جائزہ:
اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ آج کل کے جدید مسائل میں بلا شبہ ”مصالح مرسلہ“ بڑی کارآمد چیز ہے۔ لیکن صریح نصوص کے مقابلہ میں مصالح مرسلہ کا سہارا لینا ایک چور دروازہ کھولنا ہے۔ کیونکہ مصالح مرسلہ کا سہارا لینے کی جو شرائط فقہاء کرام نے ذکر فرمائی ہیں، ان میں سے ایک اہم ترین شرط یہ بھی ہے کہ کسی نص یا اجماع سے ثابت شدہ شرعی حکم کی مخالفت نہ ہوتی ہو۔ اور وہ مصلحت وضرورت بھی نہ ہو، قطعی و کلی، یا قطعی و اجتماعی قسم کی ہو۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس سے عام نصوص کی تخصیص بھی ناممکن ہے۔
چہ جائیکہ ان نصوص کو ترک و معطل ہی کر دیا جائے۔ اور پھر مصالح مرسلہ سے فیصلہ کرنا بھی ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ اور جمہور علماء اصول تو نفی کے قائل ہیں۔ لیکن اس کے اعتبار کی صورت میں کم از کم اس کی شرائط تو پوری ہونی چاہییں۔ اور یہ چونکہ ایک خالص اصولی مسئلہ ہے۔ لہذا ہم اس کی تفصیل میں نہیں جاتے۔
بلکہ جنہیں تفصیل مطلوب ہو وہ کتب اصول فقہ کی طرف رجوع کریں۔ مثلاً شیخ محمد خضری بک مصری کی کتاب اصول الفقہ (ص 338-342، المكتبة التجارية الكبرى) اور جامعہ امام محمد بن سعود الاسلامیہ الریاض کے مدیر ڈاکٹر عبد اللہ ترکی کی کتاب اصول مذهب الامام احمد (ص 459-593، مؤسسة الرسالة) امام شوکانی کی کتاب ارشاد الفحول الى تحقيق الحق من علم الاصول (ص 241-243، حلبی) اور الاعتصام شاطبی، احكام في اصول الاحكام آمدی اور المستصفی غزالی وغیرہ کتب اس سلسلہ میں بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
یہاں ایک بات آپ پیش نظر رکھیں کہ اگر ہر چھوٹی بڑی ضرورت کا اعتبار کرتے ہوئے اور نصوص کی موجودگی میں بھی مصالح مرسلہ کا سہارا لینا شروع کر دیا جائے، تو پھر یہ ایک چور دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔ جس کے ذریعے ہر قسم کے دنیوی، تجارتی اور غیر تجارتی سبھی قسم کے اعلانات جائز قرار پائیں گے۔ اور مساجد ایک اکھاڑا اور بے ہنگم شور کا ذریعہ بن جائیں گی۔ بلکہ ہمارے بعض لوگوں کے ایسے فتاوی کے نتیجہ میں آج کل ایسے اعلانات کا مشاہدہ ہمارے ممالک میں بکثرت بلکہ ہر روز ہوتا ہے، جو کہ مسجد کے تقدس و احترام کے منافی ہے۔ یہ تو ہوا مجوزین کے دلائل کا مختصر جائزہ۔
ایک مناسب حل:
اور اب آئیے دیکھیں کہ جب مساجد سے ایسے اعلانات ناجائز ہیں تو پھر کیا اس کا کوئی دوسرا مناسب حل بھی ہے یا نہیں۔ تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ ایک تو ہم موضوع کے شروع میں ہی ذکر کر آئے ہیں کہ اس کے دوسرے کئی طریقے ہیں جو جائز و مفید اور مؤثر بھی ہیں۔ بس ان میں ذرا خرچہ ہوتا ہے۔ تو بھئی بچے سے قیمتی کیا چیز ہو سکتی ہے۔ اور چلیے اگر اسے کچھ لوگوں کے لیے ناقابل عمل ہی سمجھا جائے۔ تو پھر اس مسئلہ کا ایک دوسرا اور مناسب حل یہ بھی ہے کہ اہل گاؤں یا شہر کے اہل محلہ باہمی تعاون سے مسجد کے ساتھ لیکن مسجد سے باہر اس کا بندوبست کریں۔ بالکل اسی طرح جیسے نمازیوں کے لیے طہارت خانے اور ٹوٹیاں وغیرہ کا انتظام مسجد کے لوازمات سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ان اعلانات کے لیے بھی مسجد سے باہر انتظام کر دیا جائے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا تقاضا یہی ہے کہ انہیں ان کے اصل حال پر رکھتے ہوئے اپنایا جائے۔
اور کوئی ایسا مستقل انتظام کر دینے سے یہ تقاضا بھی پورا ہو جائے گا۔ بقاء نفس اور احترام آدمیت کے جذبہ پر بھی عمل ہو جائے گا۔ اور مصالح مرسلہ کی شرائط کو توڑ کر انہیں ناجائز طور پر استعمال کرنے کی نوبت بھی نہیں آئے گی۔ اور نہ ہی بلاضرورت قطعیہ وکلیہ ”الضرورات تبيح المحذورات“ کا سہارا لینے کی نوبت آئے گی۔
ہاں اگر باہر سے کوئی گمشدہ چیز ملے تو اس کے متعلق نمازیوں کو اطلاع دینے میں انشاء اللہ مواخذہ نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ کسی گمشدہ چیز کی تلاش کا اعلان نہیں ہے۔ اور ان ممانعت والی احادیث کی زد میں بھی نہیں آتا۔ اگرچہ بہتر اور مناسب تو اس کے لیے بھی یہی ہے کہ اس سے بھی بچنے کی کوشش کی جائے۔ جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے متعلق بعض آثار سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے گمشدہ چیز لانے والے کو مسجد کے دروازے پر اعلان کرنے کا حکم فرمایا تھا۔ جیسا کہ المغنی ابن قدامہ (606/5 بحوالہ ہفت روزہ احمد بیت ایضاً) میں مذکور ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے