سوال : کیا مسافر کو رمضان میں صوم توڑنے کی رخصت کے لئے یہ شرط ہے کہ اس کا سفر پیدل یا سواری کے ذریعہ ہو ؟ یا پیدل، جانور اور گاڑی یا جہاز کے ذریعہ سفر کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے ؟ اور کیا اس بات کی بھی شرط ہے کہ سفر میں تکلیف اور مشقت ہو جس کی وجہ سے مسافر صوم رکھنے کی طاقت نہ رکھے ؟ اور کیا مسافر کے لئے طاقت رکھنے کی صورت میں صوم رکھنا افضل ہے یا نہ رکھنا ؟
جواب : جس سفر میں مسافر کے لئے قصر کرنا جائز ہے ایسے سفر میں صوم چھوڑنا بھی جائز ہے۔ خواہ پیدل ہو یا سواری کے ذریعہ۔ اور سواری میں گاڑی ہو یا جہاز، یا ان کے علاوہ کوئی اور سواری ہو۔ اور خواہ مسافر اس سفر میں ایسی تھکاوٹ محسو س کرے جس سے صوم رکھنے کی طاقت نہ ہو یا محسوس نہ کرے۔ بھوک اور پیاس سے دوچار ہو یا نہ ہو۔ اس لئے کہ شریعت نے قصر والے سفر میں مسافر کو صلاۃ کے قصر کرنے اور صوم کو چھوڑ دینے کی مطلق رخصت دی ہے۔ اور اس سفر کو کسی خاص سواری کے ساتھ اور بھوک، پیاس اور تکلیف کے ساتھ مقید نہیں کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے ساتھی آپ کے ساتھ ماہ رمضان میں جنگوں کے لئے سفر کر تے تھے۔ ان میں سے بعض صحابہ صوم رکھتے اور بعض صوم چھوڑ دیتے اور کوئی شخص کسی دوسرے پر عیب نہیں لگاتا تھا۔ البتہ جب گرمی کی شدت یا کھلے راستہ یا دور دراز یا مسلسل سفر ہونے کی وجہ سے دشواری ہو تو مسافر پر ماہ رمضان میں صوم نہ رکھنا بہتر ہے۔ جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں :
كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى سفر فصام بعض وأفطر بعض فتحزم المفطرون وعملوا وضعف الصائمون عن بعض العمل، فقال النبى صلى الله عليه وسلم ذهب المفطرون اليوم بالأجر [صحيح: صحيح بخاري، الجهاد والسير 56 باب فضل الخدمة فى الغزو 71 رقم 2890، صحيح مسلم، الصيام 13 باب أجر المفطرفي السفر إذا تولي العمل 16 رقم 101 1119]
’’ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو بعض لوگوں نے صوم رکھا اور بعض لوگوں نے صوم نہیں رکھا۔ پس صوم نہ رکھنے والوں نے کمر کس لی اور خوب کام کیا اور صوم رکھنے والے بعض کاموں کے کرنے سے کمزور ثابت ہو ئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج صوم نہ رکھنے والے اجر حاصل کرنے میں بازی لے گئے “۔
اور کبھی سفر میں کسی ایمرجنسی معاملہ کی وجہ سے صوم نہ رکھنا واجب ہوتا ہے جیسا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، وہ فرماتے ہیں :
سافر نا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى مكة ونحن صيام، قال : فنزلنامنزلا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إنكم دنوتم من عدوكم والفطر أقوي لكم، فكانت رخصة، فمنامن صام ومنا من أفطر، ثم نزلنامنزلا آخر فقال : إنكم مصبحواعدوكم والفطر أقوي لكم فأفطروا، وكانت عزمة، فأفطرنا، ثم قال : لقد رأيتنا نصوم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم . بعد ذلك فى السفر . رواه مسلم [صحيح: صحيح مسلم، الصيام 13 باب أجر المفطر فى السفر إذا تولي العمل 16 رقم 102، 1120]
’’ ہم نے صوم کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کا سفر کیا، پس ہم ایک مقام پر اترے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے دشمن سے قریب ہو چکے ہو اور صوم نہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ قوت کا باعث ہے۔ یہاں صوم کی رخصت ملی۔ چنانچہ ہم میں سے بعض نے صوم رکھا اور بعض لوگوں نے صوم توڑ دیا۔ پھر ہم ایک دوسری منزل پر پہونچے تو آپ نے فرمایا : کہ تم اپنے دشمن کے پاس پہنچنے والے ہو اور صوم نہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ قوت کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا تم صوم نہ رکھو۔ یہاں صوم نہ رکھنا ضروری قرار دیا گیا۔ پھر انہوں نے ( ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے ) کہا کہ : ہم نے جماعت صحابہ کو دیکھا کہ اس کے بعد ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں صوم رکھتے تھے “۔
اسی طرح جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے وہ کہتے ہیں :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم فى سفر، فرأي رجلا قد اجتمع الناس عليه، وقد ظلل عليه فقال : ماله ؟ قالوا : رجل صائم . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس من البر أن تصوموافي السفر [صحيح: صحيح بخاري، الصوم 30 باب قول النبى صلى الله عليه وسلم لمن ظلل عليه …… 36 رقم 1946، صحيح مسلم، الصيام 13 باب جواز الصوم والفطر فى شهر رمضان للمسافر فى غير معصية 15 رقم 92، 1115]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے تو آپ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کے پاس کافی لوگ اکٹھا ہیں۔ اور اس پر سایہ کر رکھا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ ایک صائم آدمی ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نیکی یہ نہیں ہے کہ تم سفر میں صوم رکھو “۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ “
جواب : جس سفر میں مسافر کے لئے قصر کرنا جائز ہے ایسے سفر میں صوم چھوڑنا بھی جائز ہے۔ خواہ پیدل ہو یا سواری کے ذریعہ۔ اور سواری میں گاڑی ہو یا جہاز، یا ان کے علاوہ کوئی اور سواری ہو۔ اور خواہ مسافر اس سفر میں ایسی تھکاوٹ محسو س کرے جس سے صوم رکھنے کی طاقت نہ ہو یا محسوس نہ کرے۔ بھوک اور پیاس سے دوچار ہو یا نہ ہو۔ اس لئے کہ شریعت نے قصر والے سفر میں مسافر کو صلاۃ کے قصر کرنے اور صوم کو چھوڑ دینے کی مطلق رخصت دی ہے۔ اور اس سفر کو کسی خاص سواری کے ساتھ اور بھوک، پیاس اور تکلیف کے ساتھ مقید نہیں کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے ساتھی آپ کے ساتھ ماہ رمضان میں جنگوں کے لئے سفر کر تے تھے۔ ان میں سے بعض صحابہ صوم رکھتے اور بعض صوم چھوڑ دیتے اور کوئی شخص کسی دوسرے پر عیب نہیں لگاتا تھا۔ البتہ جب گرمی کی شدت یا کھلے راستہ یا دور دراز یا مسلسل سفر ہونے کی وجہ سے دشواری ہو تو مسافر پر ماہ رمضان میں صوم نہ رکھنا بہتر ہے۔ جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں :
كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى سفر فصام بعض وأفطر بعض فتحزم المفطرون وعملوا وضعف الصائمون عن بعض العمل، فقال النبى صلى الله عليه وسلم ذهب المفطرون اليوم بالأجر [صحيح: صحيح بخاري، الجهاد والسير 56 باب فضل الخدمة فى الغزو 71 رقم 2890، صحيح مسلم، الصيام 13 باب أجر المفطرفي السفر إذا تولي العمل 16 رقم 101 1119]
’’ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو بعض لوگوں نے صوم رکھا اور بعض لوگوں نے صوم نہیں رکھا۔ پس صوم نہ رکھنے والوں نے کمر کس لی اور خوب کام کیا اور صوم رکھنے والے بعض کاموں کے کرنے سے کمزور ثابت ہو ئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج صوم نہ رکھنے والے اجر حاصل کرنے میں بازی لے گئے “۔
اور کبھی سفر میں کسی ایمرجنسی معاملہ کی وجہ سے صوم نہ رکھنا واجب ہوتا ہے جیسا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، وہ فرماتے ہیں :
سافر نا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى مكة ونحن صيام، قال : فنزلنامنزلا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إنكم دنوتم من عدوكم والفطر أقوي لكم، فكانت رخصة، فمنامن صام ومنا من أفطر، ثم نزلنامنزلا آخر فقال : إنكم مصبحواعدوكم والفطر أقوي لكم فأفطروا، وكانت عزمة، فأفطرنا، ثم قال : لقد رأيتنا نصوم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم . بعد ذلك فى السفر . رواه مسلم [صحيح: صحيح مسلم، الصيام 13 باب أجر المفطر فى السفر إذا تولي العمل 16 رقم 102، 1120]
’’ ہم نے صوم کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کا سفر کیا، پس ہم ایک مقام پر اترے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے دشمن سے قریب ہو چکے ہو اور صوم نہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ قوت کا باعث ہے۔ یہاں صوم کی رخصت ملی۔ چنانچہ ہم میں سے بعض نے صوم رکھا اور بعض لوگوں نے صوم توڑ دیا۔ پھر ہم ایک دوسری منزل پر پہونچے تو آپ نے فرمایا : کہ تم اپنے دشمن کے پاس پہنچنے والے ہو اور صوم نہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ قوت کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا تم صوم نہ رکھو۔ یہاں صوم نہ رکھنا ضروری قرار دیا گیا۔ پھر انہوں نے ( ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے ) کہا کہ : ہم نے جماعت صحابہ کو دیکھا کہ اس کے بعد ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں صوم رکھتے تھے “۔
اسی طرح جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے وہ کہتے ہیں :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم فى سفر، فرأي رجلا قد اجتمع الناس عليه، وقد ظلل عليه فقال : ماله ؟ قالوا : رجل صائم . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس من البر أن تصوموافي السفر [صحيح: صحيح بخاري، الصوم 30 باب قول النبى صلى الله عليه وسلم لمن ظلل عليه …… 36 رقم 1946، صحيح مسلم، الصيام 13 باب جواز الصوم والفطر فى شهر رمضان للمسافر فى غير معصية 15 رقم 92، 1115]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے تو آپ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کے پاس کافی لوگ اکٹھا ہیں۔ اور اس پر سایہ کر رکھا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ ایک صائم آدمی ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نیکی یہ نہیں ہے کہ تم سفر میں صوم رکھو “۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ “