کیا مردے زندوں کی بات سنتے اور پہچانتے ہیں؟
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

موضوع

اس موضوع پر علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا مردے زندوں کا سلام سنتے اور انہیں پہچانتے ہیں یا نہیں۔ کچھ علماء کا کہنا ہے کہ مردے زندوں کا سلام سنتے اور زائرین کو پہچانتے ہیں، لیکن یہ دعویٰ کسی مضبوط اور صحیح دلیل پر مبنی نہیں ہے۔ ذیل میں اس موضوع پر پیش کی جانے والی روایات اور ان کی سندوں کا تحقیقی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

اہم احادیث اور ان پر تحقیقی تبصرہ

1. سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت

حدیث: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص دنیا میں جسے جانتا تھا، اس کی قبر کے پاس سے گزرتا ہے اور اسے سلام کرتا ہے، تو وہ اسے پہچان لیتا ہے اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے۔‘‘
(مصنّفات أبي العبّاس الأصم: 419 (11)، فوائد أبي القاسم تمّام: 139، المعجم الشیوخ لابن جمیع الصیداوي: 333، تاریخ بغداد: 139/7، تاریخ ابن عساکر: 38/10، سیر أعلام النبلاء: 590/13)

تبصرہ:

یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے۔ اس کی سند میں راوی عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ہے، جو جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف اور متروک ہے۔ حافظ ہیثمی فرماتے ہیں:
"اکثر محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔”
(مجمع الزوائد: 20/2)
علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"عبد الرحمن بن زید کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام کا اتفاق ہے۔”
(العلل المتناہیۃ: 1523)
یہ روایت اس راوی نے اپنے والد سے روایت کی ہے، جو کہ ایک جھوٹی روایت ہے۔

2. ایک اور روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موقوف

حدیث: "جب کوئی شخص کسی قبر کے پاس سے گزرتا ہے اور سلام کہتا ہے، تو اگر وہ مردہ اسے دنیا میں جانتا تھا، تو وہ اسے پہچان لیتا ہے اور سلام کا جواب دیتا ہے، اور اگر وہ کسی اجنبی کی قبر کے پاس سے گزرتا ہے تو بھی سلام کا جواب دیا جاتا ہے۔”
(شعب الإیمان للبیہقی: 8857، الصارم المنکي في الردّ علی السبکي لابن عبد الہادي: 224)

تبصرہ:

اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی محمد بن قدامہ "ضعیف” ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس میں کمزوری ہے”۔
(تقریب التہذیب: 6234)
دوسری بات یہ ہے کہ یہ سند منقطع ہے کیونکہ زید بن اسلم کا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔
(سیر أعلام النبلاء: 590/12)

3. سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک اور موقوف روایت

حدیث: "سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ ایک قبر کے پاس سے گزرے اور فرمایا: سلام کہو! اگر اس قبر والے نے تمہیں دنیا میں دیکھا ہو گا، تو وہ اب تمہیں پہچان لے گا اور سلام کا جواب دے گا۔”
(الصارم المنکي لابن عبد الہادي: 224)

تبصرہ:

یہ روایت بھی موضوع (من گھڑت) ہے کیونکہ اس کا راوی یحییٰ بن علاء کذاب اور وضاع ہے۔
محمد بن عجلان کی تدلیس بھی اس میں شامل ہے۔
(سیر أعلام النبلاء: 590/13)

4. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت

حدیث: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘جب کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی قبر پر جاتا ہے اور اس کے پاس بیٹھتا ہے تو قبر والا اس سے مانوس ہو جاتا ہے اور جب تک وہ بیٹھا رہتا ہے، اس کے سوالات کا جواب دیتا رہتا ہے۔'”
(الصارم المنکي لابن عبد الہادي: 224)

تبصرہ:

یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے کیونکہ اس کی سند میں عبداللہ بن زیاد بن سمعان راوی متروک ہے۔
حافظ ذہبی فرماتے ہیں:
"یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی حدیثیں چھوڑ دی گئی ہیں۔”
(الکاشف: 78/2)

5. سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت

حدیث: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘جو شخص اپنے کسی مؤمن بھائی کی قبر کے پاس سے گزرے، جسے وہ دنیا میں جانتا تھا، اور سلام کہے تو مردہ اسے پہچان لیتا ہے اور سلام کا جواب دیتا ہے۔'”
(الاستذکار لابن عبد البرّ: 234/1)

تبصرہ:

اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس کے دو راوی عبید بن محمد اور فاطمہ بنت ریان کے حالات معلوم نہیں ہو سکے۔

6. شہداء سے متعلق ایک روایت

حدیث: "اپنے شہید بھائیوں کو سلام کہا کرو کیونکہ وہ تمہیں جواب دیتے ہیں۔”
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1582/4)

تبصرہ:

یہ روایت جھوٹی ہے کیونکہ اس کا راوی یحییٰ بن عبد الحمید حمانی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جمہور محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے”۔
(تقریب التہذیب: 6234)
عبدالرحمن بن زید بن اسلم بھی جمہور کے نزدیک ضعیف اور متروک ہے۔

7. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت

حدیث: "ابو رزین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مردے سنتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنتے تو ہیں، لیکن جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔”
(الضعفاء الکبیر للعقیلي: 19/4)

تبصرہ:

یہ روایت شدید ضعیف ہے کیونکہ اس کے راوی محمد بن عمار بن عطیہ مجہول ہے۔
(میزان الاعتدال: 486/3)
نجم بن بشیر راوی بھی مجہول ہے۔

8. مردوں کے سننے کی حقیقت سے متعلق ایک اور روایت

حدیث: "میت اپنے غسل دینے والے، کفن دینے والے اور قبر میں اتارنے والے کو پہچانتی ہے۔”
(مسند الإمام أحمد: 3/3)

تبصرہ:

اس روایت کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں ایک مجہول راوی موجود ہے۔

9. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک اور روایت

حدیث: "قبر میں میت کو سب سے زیادہ انس اس وقت ہوتا ہے جب اس کا کوئی جاننے والا قبر پر آتا ہے۔”
(الأربعین الطائیّۃ: 129)

تبصرہ:

یہ روایت بھی موضوع (من گھڑت) ہے کیونکہ اس کی کوئی سند موجود نہیں ہے۔

خلاصہ

تمام پیش کردہ روایات کے تجزیے سے واضح ہوتا ہے کہ مردے زندوں کا سلام سنتے ہیں یا انہیں پہچانتے ہیں، اس بات پر مضبوط اور صحیح احادیث نہیں ہیں۔ زیادہ تر روایات ضعیف یا موضوع (من گھڑت) ہیں، جنہیں اسلامی فقہاء اور محدثین نے رد کر دیا ہے۔ اس لیے اس معاملے میں احتیاط برتنی چاہیے اور صرف صحیح احادیث پر اعتماد کیا جانا چاہیے۔

حوالہ جات

مصنّفات أبي العبّاس الأصم: 419 (11)
فوائد أبي القاسم تمّام: 139
المعجم الشیوخ لابن جمیع الصیداوي: 333
تاریخ بغداد: 139/7
تاریخ ابن عساکر: 38/10
سیر أعلام النبلاء للذهبی: 590/13
مجمع الزوائد: 20/2
العلل المتناہیۃ: 1523
شعب الإیمان للبیہقي: 8857
الاستذکار لابن عبد البرّ: 234/1
الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1582/4
الضعفاء الکبیر للعقیلي: 19/4
مسند الإمام أحمد: 3/3
الأربعین الطائیّۃ: 129

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!