سوال : کچھ لوگوں کا اعتقاد ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ مشکل کشا ہیں اور خلیفہ بلا فصل ہیں، کیا ایسا عقیدہ کتاب و سنت کے خلاف نہیں ؟
جواب : اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کئی ایک صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من كنت مولاه فعلي مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه [مسند احمد419/5، 83/1، طبراني كبير 4052، مجمع الزوائد 128/9، 14610، مسند بزار 2519، كتاب السنة لابن ابي عاصم 590/2، ابن حبان 2205، ترمذي 3712، سلسلة الاحاديث الصحيحة 1750]
’’ جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے، اے اللہ ! جو علی سے دوستی لگائے تو بھی اسے دوست بنا اور جو اس سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ۔“
مذکورہ بالا حدیث کا مفہوم اس کے الفاظ سے بالکل واضح ہے کہ یہاں مولیٰ سے مراد دوست ہے یہاں مولیٰ سے مراد نہ خلیفہ بلافصل ہے اور نہ مشکل کشا اور حاجت روا۔ بلکہ خلیفہ بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور مشکل کشا اللہ تبارک و تعالیٰ ہے، جو ہر کسی کے نفع و نقصان کا مالک ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ [10-يونس:107]
’’ اور اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچا دے تو اسے دور کرنے والا کوئی نہیں مگر صرف وہی (یعنی اللہ تعالیٰ) اور اگر وہ آپ کے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو ردّ کرنے والا کوئی نہیں، وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور وہ بہت بخشنے والا مہربان ہے۔“ [یونس : 107]
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ مشکل اور مصیبت کو دور کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے، اس کے علاوہ کوئی نہیں۔ ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :
أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَـهٌ مَعَ اللَّـهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ [27-النمل:62]
’’ بےکس و ناچار جب پکارے تو اس کی پکار کو قبول کر کے کون مصیبت کو دور کرتا ہے ؟ اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟ ( جو مشکل حل کر سکے ) تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔“ [ النمل : 62]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا :
وإذا استعنت فاستعن بالله واعلم ان الامة لو اجتمعت على ان ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك ولو اجتمعوا على ان يضروك بشيء لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك [ترمذي 2516]
’’ اور جب بھی تو سوال کرے اللہ سے سوال کر اور جب بھی مد د طلب کر ے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر۔ یقین کر لے بلاشبہ اگر ساری امت اس بات پر جمع ہو جائے کہ وہ تجھے کسی چیز سے نفع پہنچائے تو وہ نفع نہیں پہنچا سکتی مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے اور اگر ساری امت تجھے نقصان پہنچانے پر اکٹھی ہو جائے تو نقصان نہیں پہنچا سکتی مگر وہی جو اللہ نے تیرے خلاف لکھ دیا ہے۔“
مذکورہ بالا آیات اور صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر قسم کے نفع و نقصان کا مالک، مشکل کشا اور حاجت روا صرف اللہ کی ذات ہے، کائنات میں سے کوئی فرد بھی کسی نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو نصیحت کرتے ہوئے یہ بات سمجھا دی کہ آپ کی امت میں سے کوئی شخص بھی خواہ نیک ہو یا بد، امیر ہو یا غریب، حکمران ہو یا رعایا، الغرض کوئی بھی کسی کی قسمت کا مالک نہیں۔ ہر قسم کا اختیار اللہ کے پاس ہے وہی مختار کل، مشکل کشا اور حاجت روا ہے۔