341۔ رنجیدگی کا کیا علاج ہے ؟
جواب :
روزانہ صبح و شام سورة الفتح کی تلاوت کرنا، سورت کی قراءت ایک ایک کلمے کی شرط کے ساتھ ہے اور اس کے ساتھ یقین کر کے زندگی گزارنا، فجر کی نماز باجماعت ادا کرنا، پھر آسمان کی طرف دیکھنا اور اشراق تک صبح کے اذکار میں مشغول رہنا۔
« الله ربي لا أشرك به شيئا، » پڑها كرو.
صبح و شام کثرت کے ساتھ یہ دعا پڑھی جائے۔
«لا إله إلا الله الحليم العظيم، لا إله إلا هو رب العرش الكريم لا إله إلا الله رب السموات والأرض ورب العرش الكريم»
”اللہ حلیم و عظیم کے سوا کوئی اللہ الٰہ نہیں ہے، نہیں کوئی معبود برحق مگر وہی جو عرش کریم کا رب ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو آسمانوں، زمین کا رب ہے اور عرش کریم کا رب ہے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 5986صحيح مسلم، رقم الحديث 2730]
ہمیشہ صدقہ کرنے کی حرص رکھنا، نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنا، اذکار پر ہمیشگی کرنا، ہمیشہ استغفار کرنا، ہمیشہ اپنے سے کم (نعمت) والے کی طرف دیکھنا اور اللہ کی ان نعمتوں پر اس کی تعریف کرنا، جس کا کوئی شمار نہیں۔
——————
342۔ کیا شیطان کھڑے ہو کر کھاتا اور پیتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں،
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« لا يشربن أحدكم قائما، فمن نسي فليستقى»
”تم میں سے کوئی ہرگز کھڑے ہو کر نہ پیے، پس جو بھول گیا وہ قے کرے۔“ [صحيح مسلم، رقم الحديث 2026]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
« نهى أن يشرب الرجل قائما قال قتادة: قلنا: فالأكل؟ فقال: ذاك أشر أو أخبث »
”آدمی کو کھڑے ہو کر پینے سے منع کیا۔ قتادہ رحمہ اللہ نے کہا: ہم نے کہا: اور کھانا؟ تو انھوں نے کہا: وہ تو زیادہ برا اور ناپاک ہے۔“ [صحيح مسلم، رقم الحديث 2024]
پس معلوم ہوا کہ جمہور اہل علم کی انتہائی ضرورت کے بغیر کھڑے ہو کر کھانے اور پینے کو مکروہ سمجھتے ہیں اور یہ کہ بیٹھ کر کھانا پینا سنت ہے۔
——————
343۔ جن کے حملے سے بچاؤ کیسے ممکن ہے ؟
جواب :
جن و شیطان کے حملے سے بچاؤ کے لیے درج ذیل نصائح کو لازم پکڑیں۔ اول وقت میں نماز ادا کرنا، اذکار کو ان کے اوقات میں ادا کرنا، روزانہ قرآن کے کچھ اجزا کی تلاوت کرنا، جب کسی بلند جگہ سے اتریں تو اللہ کا نام لیں، جب زمین میں کوئی چیز مثلاً گرم پانی ڈالیں تو الله کا نام لیں، کی تاریک جگہ میں داخل ہوں تو اللہ کا نام لیں، حیوانات کو ایذا نہ دیں، جان بوجھ کر کسی سوراخ میں بول و براز نہ کریں۔
——————
344۔ قرآن کریم کے ذریعے علاج کرنے والے کی صفات کیا ہیں ؟
جواب :
➊ تمام لوگ اس کے نیک ہونے کی گواہی دیں۔
➋ وہ خالص نیت سے کام کرے۔
➌ اذکار کے ذریعے خود کو محفوظ رکھنے والا ہو۔
➍ سلف صالحین کے عقیدے پر ہو۔
➎ وہ بدعتی نہ ہو۔
➏ اپنے قول وعمل میں توحید خالص کو ثابت کرنے والا ہو۔
➐ جنوں اور جادو کے حالات کا عالم ہو۔
➑ تقوی و نیکی اس کی پہچان ہو۔
——————
345۔ علاج کے مراحل کون سے ہیں ؟
جواب :
➊ ہر کام کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا۔
➋ بالغ عورتوں کے لیے شرعی حجاب کا ہونا اور محرم کا ساتھ ہونا۔
➌ گھر سے کتوں اور تصویروں کو نکالنا۔
➍ سب کا باوضو ہونا۔
➎ مریض کے پاس موجود تعویذ دھاگا وغیرہ جلانا۔
➏ اللہ کے سامنے عاجزی کرنا۔
➐ اللہ کے سامنے اپنی محتاجی کا اظہار کرنا۔
➑ دھوئیں اور اس کی مشابہ چیزوں (تندور، شیشہ اور بخور کے دھویں سے) جگہ کو خالی رکھنا۔
➒ سب سے پہلے عقیدے کی بات ہو، اگرچہ وہاں نماز، پردہ وغیرہ میں کوتاہی ہو، پھر تو دیگر چیزوں کا ادب اور حسن اخلاق سے ذکر کرو۔
➓ مریض سے سوال کرنے سے علاج کا آغاز کریں، تاکہ تمھیں معلوم ہو جائے کہ اسے کیا ہے۔ اس کی بات مکمل کرنے تک تسلی سے اس کی بات سنیں، پھر علاج کریں۔
——————
346۔ بیداری میں شیطانی اثرات کی نشانیاں کیا ہیں ؟
جواب :
کسی سبب کے بغیر گرنا، کسی سبب کے بغیر درد سر ہونا، اللہ کے ذکر سے رکنا اور بدکنا، آواز کا کمزور ہونا، سستی اور رنجیدگی۔
——————
347۔ نیند میں شیطانی اثرات کی نشانیاں کیا ہیں ؟
جواب :
نیند کا نہ آنا، بے قراری، گلے کا گھٹنا، گھبراہٹ میں ڈالنے والے خواب (حیوانات کا دیکھنا) دانت کاٹنا، نیند میں ہنسنا، رونا یا چینا اور دوران نیند چلنا، دوران نیند بولنا۔
——————
348۔ انسان کو جن کے چھونے کے کیا اسباب ہیں ؟
جواب :
فرمان باری تعالیٰ ہے:
«وأنه كان رجال بين الإنس يعودون برجال من الجن فزادوهم رهقاه »
”اور یہ کہ بلاشبہ بات یہ ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے بعض لوگوں کی پناہ پکڑتے تھے تو انھوں نے ان (جنوں) کو سرکشی میں زیادہ کر دیا۔“ [الجن:6]
➊ کسی جن کا انسان عورت پر عاشق ہونا یا کسی جننی کا انسان مرد پر عاشق ہونا۔
➋ کسی جن پر انسان کا ظلم، مثلاً اس پر گرم پانی گرانا یا اس پر اونچی جگہ سے گرنا وغیرہ۔
➌ کسی جن کا انسان پر ظلم، مثلاً بلاوجہ اس کو لمس کرنا اور اس پر سختی کرنا۔
➍ کسی جادوگر کے ذریعے جن کا چھوڑا جانا۔
➎ خواہشات کی محبت۔
——————
349۔ جن انسان میں کب داخل ہوتا ہے ؟
جواب :
جن انسان کے جسم میں داخل ہونے کی طاقت نہیں رکھتا، مگر چند حالات میں وہ انسانی بدن میں داخل ہو جاتا ہے :
➊ انتہائی کمزوری کی حالت میں۔
➋ شدید غصے اور خوف میں۔
➌ خواہشات پر ٹوٹنے میں۔
➍ اور شدید غفلت میں۔
——————
350۔ صرع کیا ہے ؟
جواب :
صرع انسان کو اس کی عقل میں پہنچنے والے خلل کا نام ہے۔ جس کی وجہ سے انسان اپنی کہی ہوئی بات یاد نہیں رکھ سکتا۔ کہی ہوئی بات اور آئندہ کہنے والی بات میں ربط قائم نہیں رکھ سکتا۔ یاد دہانی کے فقدان کے نتیجے میں اسے مغز کے اعصاب میں خلل کا سامنا ہوتا ہے، پھر وہ اپنی حرکات میں خبطی ہو جاتا ہے۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ علیہ نے ”صرع“کے بارے میں ”عالم الجن في ضوء الكتاب و السنة“ [ص: 250] اور ”عالم الجن و الملائكة“ [ص: 76] میں فرمایا : یہ ایک علت ہوتی ہے، جو اعضاے رئیسہ کو کام کرنے میں جزوی طور پر روکتی ہے اور اس کا سبب وہ غلیظ ہوا ہوتی ہے جو دماغ کی گزرگاہوں میں بند ہو کر رہ جاتی ہے یا ردی قسم کے بخارات ہوتے ہیں جو بعض اعضا سے دماغ کی طرف چڑھتے ہیں جس کے بعد اعضا میں سکیڑ پیدا ہو جاتا ہے اور انسان صحیح طور پر کھڑا بھی نہیں ہو سکتا۔
قرآن سے دلائل:
اللہ تعالی نے فرمایا:
«الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢٧٥﴾ »
”وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں، کھڑے نہیں ہوں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر خبطی بنا دیا ہو۔ یہ اس لیے کہ انھوں نے کہا یہ تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا، پھر جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت آئے پس وہ باز آ جائے تو جو پہلے ہو چکا وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو دوبارہ ایسا کرے تو وہی آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“ [البقرة: 275]
امام قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا :
”اس آیت میں اس شخص کے انکار کا رد ہے، جس نے جن کی طرف سے لمس کا انکار کیا اور یہ گمان کیا کہ یہ طبیعتوں کا فعل ہے اور جو کہتا ہے کہ شیطان انسان میں نہ چل سکتا ہے اور نہ اسے چھو سکتا ہے۔“ [تفسير القرطبي 355/3]
امام طبری رحمہ اللہ نے فرمایا:
”قتادہ سے مروی ہے کہ بے شک جاہلیت کا سود یہ ہوتا تھا کہ آدمی ایک معین مدت تک بیع کرتا، پھر جب وہ مدت آ جاتی اور دوسرے کے پاس رقم نہ ہوتی تو یہ اس رقم کو بڑھا کر مدت ادائی میں اضافہ کر دیتا تھا، پس اللہ تعالی نے مذکورہ سود خوروں کے بارے میں فرمایا: «لَا يَقُومُونَ» یعنی وہ آخرت میں اپنی قبروں سے ایسے ہی اٹھیں گے جیسے وہ شخص اٹھتا ہے جسے شیطان نے چھو کر مخبوط الحواس کر دیا ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان دنیا میں انسان کو چھو کر خبطی بنا سکتا ہے۔“ [تفسير الطبري 101/3]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا:
”یعنی وہ نہیں کھڑے ہوں گے، مگر جیسے گرایا ہوا گرے ہونے کی حالت میں ہو اور شیطان نے اسے حواس باختہ کیا ہوا ہو، یعنی وہ .قیامت کو انتہائی بری حالت میں کھڑا ہو گا۔“ [تفسير ابن كثير 326/1]
——————