51۔ شیطان سچا ہے یا وہ جھوٹ بولتا ہے ؟
جواب :
شیطان جھوٹا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں صدقے کے مال کا محافظ مقرر کیا تو دو راتیں ایک آنے والا آتا اور صدقے سے لپیں بھرنا شروع کر دیتا۔ جب تیسری رات بھی ایسا ہوا تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں ضرور تجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر جاؤں گا، اس نے کہا: مجھے چھوڑ دو، میں تمھیں ایسے کلمات سکھاؤں گا، جن کی بدولت اللہ تعالیٰ تجھے نفع دے گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : وہ کلمات کیا ہیں؟“ تو اس نے کہا : جب تو بستر پر سونے کے لیے آئے تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو:
اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ ﴿٢٥٥﴾
”اللہ (وہ ہے کہ ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں، زندہ ہے، ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے، نہ اسے کچھ اونگھ پڑتی ہے اور نہ کوئی نیند، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے، کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے، جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرتے مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین کو سمائے ہوئے ہے اور اسے ان دونوں کی حفاظت نہیں تھکاتی اور وہی سب سے بلند، سب سے بڑا ہے۔“ [البقرة: 255]
تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجھ پر ایک محافظ مقرر ہو جائے گا اور صبح تک شیطان تیرے قریب نہیں آئے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا:
صدقك، وهو كذوب، ذاك شيطان [صحيح بخاري رقم الحديث 3101]
” اس نے سچ کہا ہے، حالانکہ وہ جھوٹا ہے، وہ شیطان ہے۔“
تو معلوم ہوا کہ شیطان جھوٹا ہے۔
——————
52۔ کیا شیطان کسی حیوان کی شکل اختیار کر سکتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں!
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بےشک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يقطع الصلاة الحمار والمرأة والكلب الأسود
گدھا، عورت اور سیاہ کتا نماز کو کاٹ دیتے ہیں۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: سیاہ کتا ہی کیوں؟ سرخ کتا کیوں نہیں کاٹتا؟ تو آپ نے فرمایا: اے بھتیجے! جس طرح تو نے مجھ سے پوچھا ہے، ایسے ہی میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الكلب الأسود شيطان [صحيح مسلم رقم الحديث 59/2]
’’سیاہ کتا شیطان ہے۔ “
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الكلب الأسود شيطان
’’کالا کتا شیطان ہے۔ “
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ شیطان حیوان کی شکل اپنا سکتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ”رسالة الجن“ میں لکھتے ہیں:
’’جن انسانوں اور چوپایوں کی شکل اپنا سکتے ہیں، سانپ اور بچھو وغیرہ کی شکل بھی اختیار کر سکتے ہیں، ایسے ہی اونٹ، گائے، بکری، گھوڑا، خچر اور گدھا بھی بن سکتے ہیں، وہ پرندوں اور انسانوں میں بھی آ سکتے ہیں، مگر اس کی افضل صورت سیاه رنگ ہے۔ “ [رسالة الجن ص 32]
——————
53۔ شیطان کا معرکہ اور جھنڈا کہاں ہے ؟
جواب :
شیطان کے حملے کی جگہ بازار ہے۔
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تكونن إن استطعت أول من يدخل السوق ولا آخر من يخرج منها؛ فإنها معركه الشيطان، وبها ينصب رايته [صحيح مسلم رقم الحديث 2451]
”اگر تو استطاعت رکھتا ہے تو بازار میں سب سے پہلے داخل ہونے اور سب سے آخر میں نکلنے والوں میں سے نہ ہونا۔ یہ شیطان کے حملہ آور ہونے کی جگہ ہے اور یہاں وہ اپنا جھنڈا نصب کرتا ہے۔ “
ایک روایت میں ہے:
فيها باض الشيطان وفرخ [المعجم الكبير للطبراني 248/6، شعب الايمان 379/7]
بازاروں ہی میں شیطان انڈے دیتا اور بچے نکالتا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ علیہ نے إنها معركة الشيطان کی تشرت میں لکھا ہے:
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بازار، اہل بازار کے ساتھ شیطان کا کردار اور ان پر اس (شیطان) کے تسلط کو معرکے کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔
بازار میں جو بہت سے باطل کام ہوتے ہیں، انھیں مدنظر رکھتے ہوئے جیسے، ملاوٹ، دھوکا دہی، جھوٹی قسمیں، غلط سودے بازی، سودے پر سودا کرنا، بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ کرنا، کم ماپ تول وغیرہ۔
وبها نصب رايته سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شیطان اور اس کے چیلوں کا اجتماع بازاروں میں ہوتا ہے، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان فساد مچائیں اور انھیں ان مذکورہ بالا ناجائز کاموں پر ابھاریں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس شخص نے بازار میں داخل ہوتے وقت کہا:
لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو حي لا يموت، بيده الخير، وهو على كل شيء قدير . [الكلم الطيب رقم الحديث 172]
نہیں ہے کوئی معبود برحق مگر اللہ ہی درآں حالیکہ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے لیے ہی بادشاہت ہے اور اس کے لیے ہی تعریف ہے۔ وہ زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ وہ زندہ ہے مرے گا نہیں۔ اس کے ہاتھ میں بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اس کے لیے دس لاکھ نیکی لکھ دی جاتی ہے اور دس لاکھ برائی مٹا دی جاتی ہے اور دس لاکھ درجات بلند کر دیے جاتے ہیں۔
——————
54۔ شیطان کی کتنی قوت ہے ؟
جواب :
فرمان باری تعالیٰ ہے:
الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا ﴿٧٦﴾
”وہ لوگ جو ایمان لائے، وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا، وہ باطل معبود کے راستے میں لڑتے ہیں۔ پس تم شیطان کے دوستوں سے لڑو، بے شک شیطان کی چال ہمیشہ نہایت کمزور رہتی ہے۔“ [النساء: 76 ]
یعنی مومن اللہ تعالیٰ کی اطاعت و خوشنودی کے لیے لڑتے ہیں اور کافر شیطان کی اطاعت میں لڑتے ہیں، پھر اللہ نے مومنوں کو اپنے دشمنوں کے خلاف قتال پر اپنے قول فقاتلوا أولياء الشيطن إن كيد الشيطن كان ضعيفا کے ذریعے برانگیختہ کیا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
والذي نفسي بيده، ما لقيك الشيطان سالكا فجا إلا سلك فجا غير فجك، إن الشيطان لا سبيل له على المؤمن [صحيح بخاري رقم الحديث 3683]
” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! شیطان تجھے کسی فراخ راستے میں ملتا ہے تو وہ اپنا راستہ بدل لیتا ہے۔ شیطان کو مومن پر کوئی کنٹرول نہیں۔ “
[فتح الباري 47 / 7 ] میں سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے:
إن الشيطان لا يلقى عمر منذ أن أسلم إلا خر لوجهه
”جب سے عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے، شیطان عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر چہرے کے بل گر پڑتا ہے۔“
——————
55۔ کیا شیطان اور تصاویر کے درمیان کوئی تعلق ہے ؟
جواب :
سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لاتدخل الملائكه بيتا فيه كلب ولا صورة [شرح صحيح مسلم للنووی 8/6]
”جس گھر میں کتا یا تصویر ہو، فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے۔“
بعض علماء و محدثین کا قول ہے کہ اس سے وہ تصاویر مراد ہیں، جن کا سایہ ہو، یعنی کسی انسان یا حیوان کی تصویر یا ہر اس چیز کی تصویر جس میں روح ہو اور یہ معلوم ہے کہ فرشتے اور شیاطین ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے تو ایسی جگہ جہاں تصویر ہے تو وہاں فرشتے نہیں آئیں گے تو وہاں شیطان ڈیرے ڈال لیں گے۔ جس سے معلوم ہوا کہ شیاطین اور تصاویر کے درمیان گہری مناسبت ہے کہ تصاویر شیطان کی آمد کا سبب بنتی ہیں۔
جب گھر میں چھوٹے بچے ہوں تو ان کے کھیلنے کے لیے جو گڑیاں بنائی یا لائی جاتی ہیں، ان میں کوئی حرج نہیں۔ ایسی صورت میں ان گڑیاں (تصاویر) کی تعضیم نہیں بلکہ توہین ہوتی ہے، یعنی بچہ کھیلنے کے لیے انھیں کبھی اٹھا لیتے اور کبھی پھینکتے ہیں، کبھی کہیں پھینکتے ہیں اور کبھی کہیں۔ ہاں بچوں کی عدم موجودگی میں لا کر گھر رکھ دینا جائز نہیں۔
——————
56۔ کیا شیطان دروازہ کھول سکتا ہے ؟
جواب :
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
غطوا الإناء، وأوكئوا السقاء، وأطفئوا السراج، وأغلقوا الباب، فإن الشيطان لا يحل سقاء، ولا يفتح بابا ولا يكشف إناء، فإن لم يجد أحدكم إلا أن يعرض على إنائه عودا، ويذكر اسم الله فليفعل، قاين الفويسقة تضرم على أهل البيت بيتهم [صحيح بخاري رقم الحديث 3280، صحيح مسلم رقم الحديث 2012]
”برتنوں کو ڈھانپا کرو، مشک کا تسمہ باندھ رکھو، چراغ بجھا دیا کرو اور دروازوں کو بند رکھا کرو، کیونکہ (ایسی صورت میں) شیطان مشک میں اتر سکتا ہے، نہ دروازہ کھول سکتا ہے اور نہ برتن کا منہ کھول سکتا ہے۔ اگر تم میں سے کسی کے پاس برتن کو ڈھانپنے کے لیے سوائے لکڑی کے کچھ بھی نہ ہو تو وہی برتن پر رکھ دے اور بسم الله پڑھے۔ بے شک چوہیا اہل خانہ پر ان کے گھر کو جلا دیتی ہے۔“
ایسے ہی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
إذا نمتم فأطفئوا سرجكم، فإن الشيطان يدل مثل هذه يقصد الفأرة على هذا- أي: الفراش. فتحرقكم [سنن ابي داود رقم الحديث 5247]
”جب تم سونے لگو تو چراغ بجھا دیا کرو، کیونکہ شیطان اس جیسی (چوہا) کو اس (بستر) پر راہنمائی کرتا ہے تو وہ تم کو جلا دیتی ہے۔“
یعنی وہ چوہیا کو لاتا ہے تو وہ چراغ جلتا ہوا گھسیٹ کر لاتی ہے اور بستر پر پھینک دیتی ہے، جس کی وجہ سے گھر جل جاتا ہے، اس لیے سوتے وقت چراغ بجھا دیا کرو۔
ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ شیطان سے نجات کی سبیل سیکھے، وہ اس طرح کہ وہ برتنوں کو ڈھانپے بغیر نہ چھوڑے، سونے سے پہلے گھریلو چراغ بجھا دے، دروازوں اور کھڑکیوں کو بسم الله ، پڑھ کر بند کر دے اور گھر میں دخول کے وقت السلام علیکم کہے۔ خواہ گھر میں کوئی ہو یا نہ ہو، یہاں تک کہ شیطان گھر سے بھاگ جائیں۔
——————
57۔ کیا شیطان کو گھنٹی سے کوئی مناسبت ہے ؟
جواب :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لاتصحب الملائكه رفقة فيها كلب ولا جرس [صحيح مسلم رقم الحديث 2113]
” فرشتے اس گروہ کے ساتھ نہیں چلتے، جس میں کتا یا گھنٹی ہو۔ “
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
الجرس مزامير الشيطان [صحيح مسلم رقم الحديث 2114]
” گھنٹی شیطان کی بانسری ہے۔‘‘
کہا گیا ہے کہ گھنٹی ”ناقوس “کے مشابہ ہے، یا گھنٹی ممنوعه آلات میں شامل ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ گھنٹی کے شیطان کی بانسری ہونے کا سبب اس کی مکروہ آواز ہے اور مزامير الشيطان والی روایت اس کی موید ہے۔ ہم یہاں نصیحت کریں گے کہ لوگ گھروں میں موجود ممنوعه آواز والی گھنٹیاں بدلیں، حتی کہ موبائل کی گھنٹی بھی اور ایسی گھنٹیاں لگائیں جو اللہ اور اس کے رسول کی رضا مندی کا باعث ہوں۔
——————
58۔ کیا شیطان ایک کے ساتھ ہوتا ہے یا جماعت کے ساتھ ؟
جواب :
عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الراكب شيطان، والراكبان شيطانان، والثلاثة ركب [موطأ إمام مالك رقم الحديث 1793، مسند أحمد رقم الحديث 7697، سنن أبى داود رقم الحديث 2284، سنن الترمذي رقم الحديث 1671، سنن النسائي فى الكبري رقم الحديث 7618، مستدرك الحاكم رقم الحديث 2450]
”اکیلا شیطان ہوتا ہے، دو بندے بھی دو شیطان ہوتے ہیں اور تین بندے ایک جماعت ہوتے ہیں۔‘‘
اس لیے تنہائی سے بچنا چاہیے، کیونکہ بھیڑیا بھی الگ تھلگ رہنے والی بکری کو کھا جاتا ہے اور شیطان انسان کا بھیڑیا ہے۔ نیک مومن لوگوں کی صحبت اختیار کرنی چاہیے اور ایسے ہم مجلس کا انتخاب کرنا چاہیے جو وعظ و نصیحت کرے اور اللہ تعالیٰ کی یاد دلا دے۔ اگر انسان تنہائی میں ہو تو اللہ کے ساتھ انس کو بہترین انس بنا لے۔
——————
59۔ کیا کوئی چیز شیطان کو دیکھ سکتی ہے ؟
جواب :
ہاں، گدھا شیطان کو دیکھتا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا سمعتم صياح الديكة فاسألوا الله من فضله؛ فإنها رأت ملكا، وإذا سمعتم نهيق الحما فتعوذوا بالله من الشيطان فإنه رأى شيطانا [صحيح بخاري رقم الحديث 3303، صحيح مسلم رقم الحديث 2729]
”جب تم مرغ کی آواز سنو تو اللہ سے اس کا فضل مانگو، کیونکہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے اور جب گدھے کا ہنہنانا سنو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو، کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے۔“
——————
60۔ کیا شیطان گھاٹیوں میں ہوتا ہے ؟
جواب :
سیدنا ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب لوگ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) پڑاو ڈالتے تو وادیوں اور گھاٹیوں میں بکھر جاتے۔
رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
ما بال تفرقكم فى هذه الشعاب والأودية؟ إنما ذلكم من الشيطان، فلم ينزلوا بعد ذلك منزلا إلا انضم بعضهم إلى بعض [سنن ابي داود رقم الحديث 2628]
”تمھارا یہ گھاٹیوں اور وادیوں میں بکھر جانا محض شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، اس کے بعد جب بھی صحابہ نے کہیں پڑاؤ کیا تو ایک دوسرے کے قریب ہی رہے۔“
لوگ (صحابہ کرام) جب سفر کرتے اور استراحت کے لیے کسی جگہ اترتے تو راستوں اور پہاڑوں کے نشیب و فراز میں بکھر جاتے تو یہ تنہائی سے بھی دور تر صورت ہے۔ اکٹھے رہنا اور تعاون کرنا انھیں ایذا پہنچانے اور ڈرانے والی چیزوں سے بچانے کا موجب ہے تو وادیوں اور گھاٹیوں میں اکٹھا اور مل کر رہنا انھیں شیطان پرقوی اور شجاع بنا دیتا ہے۔
انسان جب کسی نشیبی زمین کی طرف اترے تو سبحان الله کہے اور جب فراز کی طرف جائے تو اللہ اکبر کہے، ایسے ہی جب سواری پر سوار ہو تو ضرور درج ذیل دعا پڑھے:
سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَـٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ
”وہ ذات پاک ہے جس نے ہمارے لیے اس جانور کو تابع فرمان بنا دیا اور ہم اس کی طاقت رکھنے والے نہ تھے اور یقیناً ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں۔ “
وہ ذات پاک ہے، یقینا میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے تو مجھے بخش دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی نہیں بخشش عطا کر سکتا۔
——————