کیا امامت اصول دین سے ہے؟ اور کیا یہ قطعی دلائل سے ثابت ہے؟
شیعہ کے ہاں امامت دین کا ایک بنیادی اصول ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کی توحید ، نبوت ، بعثت اور اس کے ساتھ نماز ، زکوۃ ، روزہ اور حج وغیرہ۔ ان کے ہاں عقائد کی کتابوں میں اس کی متعدد روایات ملتی ہیں۔
شیعہ اور امامت کی روایات:
الکلینی نے اپنی سند سے ابو جعفر سے روایت کیا ہے ، کہا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ، نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج اور ولایت ۔ [أصول الكافي: كتاب الايمان والكفر، باب دعائم الاسلام 2 برقم 3]
اور ایسے کسی چیز کا اعلان نہیں کیا گیا جیسا کہ ولائیت کا پرچار کیا گیا ہے۔ لوگوں نے باقی چار ارکان کو تو قبول کر لیا مگر ولائیت کو ترک کر دیا۔
شرح الکافی میں اس حدیث کا شیعہ کے ہاں درجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ”موثق كالصحيح“ یہ حدیث ان کے ہاں انتہائی قابل اعتبار ہے ، بالکل صحیح روایات کی طرح۔
[شرح الكافي: 2/5 ، برقم 1478]
اس روایت میں انہوں نے شہادتیں جو کہ اسلام کا اہم اور عظیم ترین رکن ہے کو ساقط کر کے اس کی جگہ ولائیت کو رکھا ہے۔ اور پھر اسے سب سے بڑا رکن شمار کرتے ہوئے کہا ہے اور ایسے کسی چیز کا اعلان نہیں کیا گیا جیسے ولائیت کا پرچار کیا گیا ہے۔
اس پر ایک اور حدیث بھی دلالت کرتی ہے ، جس میں سابقہ نص کو ذکر کیا گیا ہے اور اس میں یہ الفاظ زیادہ بھی ہیں راوی کہتا ہے میں نے کہا ان ارکان میں سے کون سی چیز سب سے افضل ہے؟ ۔
فرمایا: ”ولایت“ [اصول الكافي: كتاب الايمان والكفر ، باب دعائم الاسلام 2/ 18] ، يہ حديث صحيح سند كے ساتھ ثابت ہے۔ جيسا كہ شيعہ مشائخ نے كہا ہے۔ ديكهو: [الشافي: 955 ، يہ حديث تفسير عياشي ميں بهي آتي ہے۔ 191/1 ، البرهان 303/1 ، بحار الانوار: 194/1]
اور یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سو بیسں بار معراج ہوئی، اور ان میں سے ہر بار اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر فریضہ سے بڑھ کر ان کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد دیگر آئمہ کی وصیت کی۔
[ابن بابويه: الخصال: 600- 601 ، بحار الانوار: 69/2]
ہمیں یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ہر بار اس کا تکرار کیوں کیا جاتا تھا؟
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھول جاتے تھے یا اس کی کوئی دوسری وجہ تھی؟
پھر یہ کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں صرف ایک اسراء کا ذکر کیا ہے پھر یہ ایک سوبیس اسراء کا ذکر کہاں سے آ گیا ہے؟ ۔
امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی طرف منسوب روایات میں سے کلینی اپنی کتاب الکافی میں ایسی پندرہ روایات لائے ہیں۔ جبکہ ان میں سے ایک روایت بھی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں۔ ہم اہلِ سنت اپنا دین تو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لیتے ہیں۔
علمائے اثناعشری مذہب کی تائید کہ امامت ایک اصول ہے:
عقائد کی کتابوں میں اثنا عشری علما نے اسی عقیدہ پر اعتماد کیا ہے۔ اور اسے اپنی تصانیف میں نقل کیا ہے۔ ہم یہاں پر بطور نمونہ صرف تین مثالیں درج کرتے ہیں:
شیعی اثنا عشری عالم جعفر السبحانی نے اپنی کتاب الملل والنحل میں کہا ہے:
”کیا امامت اصول دین میں سے ہے یا فروع دین میں سے“
اس عنوان کے تحت جو کچھ کہتا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:
”شیعہ کا شروع دن سے اتفاق ہے کہ امامت کے اصول دین میں سے ایک اصول ہے ۔“
[الملل النحل: 257]
محمد رضا مظہر کہتا ہے:
”ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امامت دین کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔ اس پر عقیدہ رکھے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا ۔“
[عقائد الاماميه: 102]
اور خمینی بھی یہی کہتا ہے:
”امامت دین اسلام کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔“
[كشف الاسرار: ص: 149]
جبکہ دیگر چار اصول جن کا گذشتہ سطور میں امامت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے جنہیں اہل سنت والجماعت ارکان اسلام کہتے ہیں۔ یہ تمام امت کے ہاں کتاب اللہ کے قطعی دلائل سے ثابت ہیں۔ جبکہ امامت کی کوئی قطعی دلیل کتاب و سنت میں نہیں پائی جاتی۔
اہل سنت و الجماعت کے ہاں ارکانِ اسلام:
اس سے قبل کہ ہم جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد وہ صحیح روایت ذکر کریں جس میں اہل سنت و الجماعت کے نزدیک ارکان اسلام کا بیان ہے جن پر اسلام کی بنیاد قائم ہے ، جس میں اللہ تعالی کے دین کا اہم رکن شامل ہے ، جسے ان لوگوں نے اس روایت سے ختم کر دیا ہے جس میں ارکان اسلام کا بیان ہے۔ جس کے بغیر اسلام مکمل نہیں ہوتا اور اس کی جگہ پر ولائیت کو لے آئے ہیں۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی حدیث میں یہ رکن موجود ہے مگر انہوں نے اس کی جگہ ولائیت کا ذکر کیا ہے؟ اور پھر دوسری روایت میں بھی اسے بیان کیا۔ یہ عظیم الشان رکن لا اله الا الله محمد رسول الله کی گواہی دینا ہے۔
صحیحین میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بنى الإسلام على خمس شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمداً رسول الله صلى الله عليه وسلم واقام الصلاة وايتا ٔ الزكاة الحج وسوم رمضان
[بخاري: 7 ، مسلم: 21]
”اسلام کا قصر پانچ ستونوں پر بنایا گیا ہے، اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز پڑھنا ، زکوٰۃ دینا، حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا۔“
اس روایت میں ولایت کا ذکر تک نہیں۔
قرآن مجید سے ارکان دین کے دلائل:
آمدہ سطور میں کتاب اللہ سے وہ قطعی دلائل ذکر کیے جائیں گے جن سے یہ ارکان ثابت ہوتے ہیں۔
پہلا رکن: الوھیت و نبوت:
الوهیت: سینکڑوں آیات میں اللہ تعالٰی کی الوھیت بیان ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک یہ فرمان الٰہی ہے:
وَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِيمُ [البقر: 163]
”اور تمہارا معبود اللہ تعالیٰ واحد ہے اس بڑے مہربان اور رحم والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔“
نیز فرمایا:
اللهُ لا إلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ … [البقرہ: 355]
”الله معبود برحق ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ زندہ ہمیشہ رہنے والا۔ “
نبوت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک قرآن میں چار مرتبہ صریح طور پر آیا ہے جبکہ نبوت یا رسالت کے وصفت کا بیان اور اس کے ساتھ ندا بیسیوں آیات میں وارد ہوئی ہیں۔ مثلاً فرمان الٰہی ہے:
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ [الفتح: 29]
”محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر بہت سخت ہیں ، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، آپ انہیں رکوع اور سجدہ کرتے دیکھیں گے؛ وہ اپنے رب کا فضل اور اس کی رضا ڈھونڈتے ہیں۔“
نیز فرمان الٰہی ہے:
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ [آل عمران: 144]
”اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف اللہ کے پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی پیغمبر ہو گزرے ہیں بھلا اگر آپ مر جائیں یا مارے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جا گے؟ اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا تو اللہ کا کچھ نقصان نہیں کر سکے گا اور اللہ شکر گزاروں کو ثواب دے گا۔“
اور فرمان الٰہی ہے:
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [اعراف: 158]
”فرما دیں کہ لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ، اللہ جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہی زندگانی اور موت دیتا ہے تو اللہ پر اور اس کہ رسول ، نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اللہ پر اور اسکے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں ایمان لاوٗ اور ان کی پیروی کرو تا کہ ہدایت پاؤ۔“
اور فرمان الٰہی ہے:
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ [التوبه: 128]
”یقیناََ تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر گراں ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے خواہشمند ہیں ۔ مومنوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہیں۔“
دوسرا رکن نماز:
نماز کی فرضیت اور اس کو قائم کرنے کے بارے میں کئی ایسی نصوص وارد ہوئی ہیں جن میں نماز کو ایمان کی شرط قرار دیا گیا ہے مثلا فرمان الٰہی ہے:
إِنَّ الصَّلوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتبًام موقوتا [النسا: 103]
”بیشک نماز کا مومنوں پر اوقات مقررہ میں ادا کرنا فرض ہے۔“
اور فرمان الٰہی ہے:
وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكُوةَ وَمَا تُقَدِّمُوا لِلانْفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تجدوه عند الله إن الله بمَا تَعْمَلُونَ بَصِير [البقرة: 110]
”اور نماز ادا کرتے رہو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور جو بھلائی اپنے لئے آگے بھیجو گے اس کو اللہ کے ہاں پا لو گے کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے۔“
اور فرمان الٰہی ہے:
وَأَنْ أَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَاتَّقُوهُ ۚ وَهُوَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ [الانعام: 72]
”اور یہ کہ نماز پڑھو اور اس سے ڈرو اور وہی تو ہے جس کے پاس تم جمع کیے جاؤ گے۔“
اور فرمان الٰہی ہے:
فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ ۗ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ [تو به: 11]
”اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں اور اہل علم کے لئے ہم اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔“
تیسرا رکن زکوٰة:
جہاں جہاں پر نماز کا ذکر ہوا ہے وہاں اس کے ساتھ ہی زکاۃ کا ذکر بھی ہوا ہے۔ لیکن انفرادی طور پر اس کی فرضیت کے بارے میں یہ آیات ہیں۔
فرمان الٰہی ہے:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ [توبه: 60]
”بیشک زکوٰۃ و صدقات تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان اور تألیف قلب والوں کا حق ہے۔ اور غلاموں کی آزادی اور قرض کی ادائیگی اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کی مدد میں یہ مال خرچ کرنا چاہئے۔ یہ فریضہ اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ علیم و حکیم ہیں۔“
اور فرمان الٰہی ہے:
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ [البقره: 43]
”نماز قائم کرو ، زکواۃ ادا کرو ، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔“
چوتھا رکن روزه:
فرمان الٰہی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ [البقرة: 183]
”مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بنو۔“
اور فرمان الٰہی ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [البقرة: 185]
”رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا ، جو لوگوں کا رہنما ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور جو حق و باطل کی تفریق ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے کو پائے تو اسے چاہئے کہ اس کے روزے رکھے، اور جو بیمار یا مسافر ہو تو دوسرے دنوں میں ان کی گنتی پوری کر لے۔ اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔ اور یہ حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ تم روزوں کی گنتی پوری کر لو اور اس احسان کے بدلے کہ اللہ نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو اور اس کا شکر کرو۔“
پانچواں رکن حج:
فرمان الٰہی ہے:
وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ [آل عمران: 97]
”اور اللہ کیلئے لوگوں کے ذمہ بیت اللہ کا حج کرنا ہے جو اس کی طرف راستے کی طاقت رکھے اور جو نہ مانے تو بے شک اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بے پروا ہے۔“
یہ پانچ ارکان قرآن میں دلیل قطعی کے ساتھ ثابت ہیں۔ ان میں کوئی اختلاف نہیں ، امت کے تمام گروہ انہیں مانتے ہیں۔ تو پھر قرآن سے امامت پر دلیل قطعی کہاں ہے؟
جیسے ان ارکان کے بارے میں دلیل موجود ہے، اور تمہارے عقیدہ کے مطابق ان سب کا حکم ایک ہی ہے ، قرآن میں شروع سے لے کر آخر تک اُس امامت کی مطلقاً ایک دلیل بھی نہیں جس کا تم ایمان و عقیدہ رکھتے ہو۔
پھر تم کیسے گمان کرتے ہو کہ امامت دین کے اصولوں میں سے ایک اصول یعنی رکن ہے۔ اور اس کے وجوب پر کتاب اللہ میں ایک بھی دلیل نہیں۔
اگر تم کہو کہ اس بارے میں بہت سارے دلائل ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ: صرف ایک ہی دلیل پیش کر دو۔
اثناعشریہ اور قرآن سے امامت پر دلیل:
اگر تم یہ کہو کہ فرمان الٰہی ہے:
إنَّمَا وَلِيُّكُمُ الله وَرَسُوله والَّذِينَ آمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ ويُؤْتُونَ الزَّكوة وهم ركعُونَ [المائدة: 55]
”تمہارے دوست تو اللہ اور اس کے پیغمبر ہیں اور وہ مومن لوگ ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور (اللہ کے آگے) جھکتے ہیں۔“
یہ ان کی اہم ترین دلیل ہے جسے وہ بطور حجت پیش کرتے ہیں۔ ان کے القاب کے مطابق شیخ الطائفہ – الطّوسی کہتا ہے:
امامت پر قرآنی نصوص میں سے قوی ترین دلیل یہ آیت ہے:
إنَّمَا وَلِيُّكُمُ الله وَرَسُولُه وَ الَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ ويُؤْتُونَ الزَّكوة وَهُمْ رَاكِعُونَ [المائدة: 55]
”تمہارے دوست تو اللہ اور اس کے پیغمبر ہیں اور وہ مومن لوگ ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور (اللہ کے آگے) جھکتے ہیں۔“
[تلخيص الشافي: 10/2]
اور طبرسی نے کہا ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امامت بلا فصل کے واضح تین دلائل میں سے ایک یہ آیت بھی ہے ۔
[مجمع البيان: 128/2]
ہم پوچھتے ہیں اس آیت میں امامت کا ذکر کہاں ہے؟
اگر تم کہو کہ ولایت کو امامت کے معنی میں ذکر کیا گیا ہے۔
تو ہم پوچھتے ہیں: آپ نے ولایت کی تفسیر امامت سے کیسے کی؟
اس کا معنی امامت نہیں ہے۔ اس آیت سے قبل دوسری آیات گزری ہیں جن میں ولایت کا ذکر ہے؟ اور جو کچھ تم نے بیان کیا ہے ؛ وہ شیعہ اور اہل سنت کے اجماع کے خلاف ہے۔ آپ ان آیات پر اچھی طرح غور و فکر کریں اور پھر ان سے سابق ولاحق سے تفسیر سمجھیں ۔
فرمان الٰہی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ 51 فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَن تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ ۚ فَعَسَى اللَّهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا فِي أَنفُسِهِمْ نَادِمِينَ 52 وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا أَهَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ ۚ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُوا خَاسِرِينَ 53 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ 54 إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ 55 وَمَن يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ 56 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ 57 وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ 58 [المائدة: 51-58]
”اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ، یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو انہیں دوست بنائے گا تو یقیناً وہ ان میں سے ہو گا، بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ پس آپ ان لوگوں کو دیکھیں گے جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ دوڑ کر ان میں جاتے ہیں، کہتے ہیں ہم ڈرتے ہیں کہ ہمیں کوئی چکر آ پہنچے، تو قریب ہے کہ اللہ فتح لے آئے، یا اپنے پاس سے کوئی اور معاملہ ، تو وہ اس پر جو انھوں نے اپنے دلوں میں چھپایا تھا، پشیمان ہو جائیں۔ اور ایمان والے کہتے ہیں: کیا یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنی پختہ قسمیں اٹھائیں ، اللہ کی قسم کھائی تھی کہ وہ یقیناََ تمھارے ساتھ ہیں۔ ان کے اعمال تباہ ہو گئے ، اور وہ خسارہ پانے والے ہو گئے ۔ اے اہل ایمان! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ عنقریب ایسی قوم کو لے آئے گا کہ وہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے، مومنوں پر بہت نرم ہوں گے، کافروں پر بہت سخت ، اللہ کے راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت گر کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے ، وہ اسے دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ وسعت والا ، سب کچھ جاننے والا ہے۔ تمھارے دوست تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ رکوع کرنے والے ہیں۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کو اور اہل ایمان کو دوست بنائے ، تو یقیناً اللہ کا گروہ وہی لوگ ہیں جو غالب ہیں۔ اے ایمان والو! جنھوں نہ تمھارے دین کو مذاق اور کھیل بنا لیا، اور جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے اور کفار کو دوست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرو ، اگر تم ایمان والے ہو۔ اور جب تم نماز کی طرف آواز دیتے ہو تو وہ اسے مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ بے شک وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے نہیں۔“
تو پھر آپ نے اس کی تفسیر کو امامت سے کرنا کیسے جائز سمجھا۔ اور دوسرے مقامات پر خود تم نے راس کی تفسیر غیر امامت سے کی ہے ، جیسا کہ تمہاری تفاسیر میں ہے۔ قرآن مجید ان الفاظ سے بھرا ہوا ہے۔ اور یہ کلمات اپنے متعدد مشتقات کے ساتھ کہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف اور کہیں لوگوں کی طرف۔ اور ان میں کسی ایک جگہ بھی کلمہ امامت کے معنی میں نہیں آیا۔ تو پھر یہاں اس کلمے کو الٹ کر اس سے امامت کا معنی نکالنے کی کوشش کیوں کی گئی؟
قرآن میں ولایت سے مراد شیعہ والی ولایت نہیں:
کتاب اللہ میں یہ کلمہ بغیر کسی اضافت کے تقریباََ بیسں مواقع پر وارد ہوا ہے ۔ یہاں پر اس کے معانی نصیر ، حفیظ اور نگہبان کے ہیں۔ مثلاً: فرمان الٰہی ہے:
أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ [البقرة: 107]
”تمہیں معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے، اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مددگار نہیں۔“
اور فرمان الٰہی ہے۔
وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ [بقرة: 120]
”اور تم سے یہود و نصاری کبھی خوش نہ ہوں جب تک کہ آپ ان کے مذہب کی پیروی اختیار کر لیں۔ فرما دیجیے: اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے ۔ اور اگر آپ اس علم کے آ جانے پر بھی ان کی خواہشوں پر چلو گے تو اللہ کے ہاں آپ کا کوئی دوست و مددگار نہ ہو گا۔ “
اور یہ اسم ظاہر کی طرف مضاف بھی وارد ہوا ہے ۔ فرمان الہی ہے:
للَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ [البقرة: 257]
”جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا دوست اللہ ہے کہ انہیں اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے اور جو کافروں کے دوست شیطان ہیں کہ ان کو روشنی سے نکال کر اندھیرے میں لے جاتے ہیں یہی لوگ اہل دوزخ ہیں کہ اس میں ہمیشہ رہیں گئے۔“
اور فرمان الٰہی ہے:
إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۗ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [آل عمران: 68]
”ابراہیم سے قرب رکھنے والے تو وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں اور یہ پیغمبر اور اہل ایمان ، اور اللہ تعالیٰ مومنوں کا کارساز ہے۔“
اور کہیں یہ اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر آیا ہے ۔ فرمان الٰہی ہے:
بَلِ اللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ [آل عمران: 150]
”بلکہ اللہ تمہارا مددگار ہے اور سب سے بہتر مددگار ہے۔ “
یہاں پر اس کی تفسیر نصرت سے کی گئی ہے۔ جیسا کہ لفظ مولكُم سے ظاہر ہے، کیونکہ اس کے بعد فرمایا گیا ہے وهو خير الناصرين . پس معنی یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہی تمہارا نصیر و مددگار ہے، اور وہ بہترین مدد کرنے والا ہے۔ یہی حال باقی مقامات کا بھی ہے۔ تو پھر امامت کیونکر مراد ہوئی۔ نیز لغت عرب میں مولكُمْ ، مَوْلُهُمْ ، مَوْلاه ، وليكم، وليهم کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ کلمات امام کے معنی میں کہاں آتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مراد امامت ہوئی تو واضح طور پر فرما دیا جاتا کہ:
علي امامكم علی رضی اللہ عنہ تمہارے امام ہیں۔
یا فرما دیا جاتا کہ:
علي وال عليكم یعنی علی رضی اللہ عنہ آپ لوگوں کے حاکم ہیں۔
یا فرما دیا جاتا: تمہارے ولی الامر ہیں۔
اگر امامت دین کے ارکان میں سے ایک رکن ہوتی تو یہ کلمات اس موضوع کے ساتھ مناسبت رکھتے تھے۔ تو اللہ عزوجل نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام کیوں نہیں لیا؟
اور آپ کے اوصاف واضح الفاظ میں بیان کیوں نہیں کئے کہ آپ امام ہیں؟ جیسا کہ دوسرے ارکان ایمان بیان کئے گئے ہیں۔
ولایت کی تفسیر خود اپنی دلیل پر کاری وار ہے:
اگر آپ یہ کہیں کہ ہم یہ تفسیر اس لئے کرتے ہیں کہ کتب تفسیر میں آیا ہے کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ جیسے بعض تفاسیر میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رکوع کی حالت میں اپنی انگوٹھی صدقہ کی ۔
تو ہم کہتے ہیں: یہ نص بذات خود امامت پر دلالت نہیں کرتی اور نہ ہی یہ سنت کی نص کے بغیر سمجھ میں آ سکتا ہے۔ تو پھر آپ کیسے گمان کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ دلیل قطعی کے ساتھ ثابت ہے۔ اور دلیل کو قطعی اس وقت تک قبول نہیں کیا جا سکتا جب تک اس کی دلالت پر تمام اہل اصول کا اتفاق نہ ہو۔ پس سابقہ تمام ارکان کیسے قرآن کریم سے دلیل قطعی کے ساتھ ثابت ہو سکتے ہیں جو کہ بذات خود ان اصولوں پر دلالت کرتے ہیں۔ اور کسی خارجی بیان کی ضرورت نہیں رہتی۔ جبکہ امامت کی دلیل خود اپنی تفسیر کے لئے ایک خارجی دلیل کی محتاج ہے۔ اور تمہارے عقیدہ کے مطابق یہ مسئلہ ان اصولی مسائل میں سے ہے جن پر تمہارے نزدیک کفر و ایمان اور جنت و جہنم کا دارو مدار ہے۔
آیت کی شان نزول:
اولا: جس خارجی دلیل پر تم لوگ اعتماد کرتے ہو یعنی سببِ نزول ، تو یہ بذاتِ خود درست نہیں۔ تو پھر تم اپنے دین کے بارے میں ایسی دلیل پر اعتماد کیوں کرتے ہو جو کہ تمہارے دین میں صحیح نہیں ہے۔ اس روایت کی تین اسناد ہیں تین کی تین ضعیف روایات ہیں۔
اول: اس کی سند میں ایوب بن سوید ہے۔ اس کے بارے میں بہت کلام ہوا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ضعیف“ ہے۔
امام ابن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”حدیث کا چور تھا نا قابل اعتماد آدمی ہے۔“
دوسری: سند میں غالب بن عبداللہ القطیعی الجزری ہے۔ اس کے بارے میں یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”نا قابل اعتماد آدمی ہے۔“
دار قطنی رحمہ اللہ نے کہا ہے: ”متروک ہے ۔“ [ميزان الاعتدال: 331/3]
تیسری: سند میں محمد بن سلمی بن کہیل ہے۔ علامہ جوز جانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”گیا گزرا بہت کمزور حدیث والا تھا۔“
ابن عدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”اس نے اپنے باپ سے حدیث سماعت کی تھی۔“ پھر آپ نے اس کی منکر روایات گننا شروع کر دیں۔
اس مسئلہ میں مزید بحث بھی ہے۔ جس کا متحتمل یہ مقام نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہاں پر مقصود مختصر الفاظ میں آگاہ کرنا ہے۔ یہ ان روایات کی اسانید ہیں جن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ یہ اس بارے میں نازل ہوئی ہیں، یہ صحیح سند سے ثابت ہی نہیں۔
پھر ہم یہ بھی کہتے ہیں کیا تم ان روایات کو صحیح ثابت کر سکتے ہو؟ چلو تمہارے اس منہج کے مطابق جو تم نے اہل سنت کی تقلید میں صحیح والی روایات کیلئے ایجاد کر لیا ہے؟ کیا یہ صحیح ہے بھی؟
دوئم: اس آیت کی شان نزول میں ایک اور روایت بھی وارد ہوئی ہے وہ بھی ضعیف ہے لیکن با اعتبار عقل استدلال میں اس سے بہتر اور اقرب الالحق ہے۔ یہ روایت ان سابقہ روایات سے قبل امام طبری رحمہ اللہ نے نقل کی ہے، اور اس سے انہوں نے اس آیت کی تفسیر ولایت ایمانی سے کی ہے نہ کہ ولایت امامت سے۔ آپ فرماتے ہیں: اس آیت کی تفسیر:
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ [المائده: 55]
”تمہارے دوست تو اللہ اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور (اللہ کے آگے ) جھکتے ہیں۔“
یعنى إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا سے مراد یہ ہے کہ: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ تمہارا کئی مددگار نہیں اور وہ مومن جن کی صفات اللہ تعالی نے بیان فرمائی ہیں۔“
جہاں تک یہود و نصاریٰ کا تعلق ہے جن سے برأت کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ اور ان سے دوستی لگانے سے منع کیا ہے ۔ وہ تمہارے ولی اور دوست و مددگار نہیں ہو سکتے ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور مددگار ہیں۔ پس تم انہیں دوست [ولی] مت بناؤ۔
پھر فرمایا: کہا گیا ہے کہ یہ آیت حضرت عبادہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کے متعلق نازل ہوئی ، جب انہوں نے اپنے حلفاء بنو نضیر سے برأت کا اظہار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان سے ولایت کا اظہار کیا۔
◈ میں کہتا ہوں: یہ روایت تضعیف کے صیفہ سے روایت کی گئی ہے۔ کیونکہ اس میں ”قیل“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو اہل سنت کے منہج کے مطابق تضعیف کے لیے آتا ہے۔
پھر اسی سند سے روایت ہے کہ جب بنو قینقاع سے جنگ ہوئی تو حضرت عبادہ بن ثابت رضی اللہ عنہ جو کہ بنی عوف بن خزرج میں سے ایک تھے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حلف قائم کرتے ہوئے یہود سے برأت کا اظہار کر لیا۔ اور فرمانے لگے: میں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان سے دوستی کا اعلان کرتا ہوں اور کفار کے حلف اور ان کی ولایت سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ [المائده: 55]
”تمہارے دوست تو اللہ اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور (اللہ کے آگے ) جھکتے ہیں۔“
کیونکہ حضرت عبادہ نے فرمایا تھا کہ میں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان سے دوستی کرتا ہوں اور بنو قینقاع سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔
پھر آپ نے ابو جعفر الباقر سے اس کی تفسیر نقل کی ہے کہ: یہ تمام اہل ایمان کی ولایت ہے۔
طبری نے اپنی سند سے، اور ایسے ہی ابن ابی حاتم اور دیگر حضرات نے عبد الملک بن ابو سلیمان۔ ابو جعفر کے شاگرد سے روایت کیا ہے، وہ ابو جعفر سے روایت کرتا ہے۔ فرمایا: میں نے آپ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی:
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ [المائده: 55]
”تمہارے دوست تو اللہ اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور (اللہ کے آگے ) جھکتے ہیں۔“
میں نے کہا: یہ ایمان لانے والے کون ہیں؟
فرمایا: جو ایمان لائے ہیں ۔
ہم نے کہا: ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق نازل ہوئی ۔
فرمایا: ”حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لانے والوں میں سے ایک تھے۔“
روایت کی تحقیق اور ان کے اختلاف کے بیان کے اسباب اور تمام روایات کی عدم صحت کے بارے میں ایک تیز اور جلدی کی تحقیق ہے۔ یہ اس بات سے آگاہ کرنے کے لئے ہے کہ اکثر اسباب نزول میں استدلال نہیں ہوتا۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی ان لوگوں پر ردّ کیا جائے جو علمائے اثنا عشریہ لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ۔ اور پھر اس روایت کا ضعیف ہونا بیان نہیں کرتے۔ یہ سب کچھ تنزل کے باب سے تعلق رکھتا ہے ورنہ ہم مانتے ہیں کہ قرآن کے بغیر بھی ہر رکن پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام قرآن میں کیوں نہیں آیا؟
پھر ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ: جب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر آپ کا نام لیکر صراحت کے ساتھ نہیں کیا۔ اگر اللہ تعالی کا ارادہ آپ کو امام بنانے کا ہوتا یا امامت آپ کی طرف منسوب کی ہوتی ، کیونکہ اس سے جھگڑا ہی ختم ہو جاتا ۔ جیسا کہ باقی اصولوں میں ہوا ہے۔ خصوصا جب کہ آپ کے اصولوں کے مطابق اس پر جنت اور جہنم اور ایمان اور کفر کا دارو مدار تھا۔
اور اگر آپ کا خیال یہ ہو کہ اس صراحت سے قرآن میں تبدیلی ظہور پذیر ہوتی جیسا کہ خمینی نے کہا ہے:
”اگر مسئلہ امامت کا اثبات قرآن کریم سے ہوتا تو وہ لوگ جنہیں قرآن اور اسلام سے کوئی غرض نہیں تھی جو صرف دنیا اور جاہ و مرتبہ کے طلبگار تھے تو وہ قرآن کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے وسیلہ بنا لیتے۔ اور ان آیات کو صفحات سے حذف کر کے قیامت تک کے لئے قرآن کو تمام جہان والوں کی نظر میں گرا دیتے ۔“ [كشف الاسرار : ص: 13]
ہم کہتے ہیں: یہ قول کہنے والے کے لئے خطر ناک ترین اقوال میں سے ہے ، کیونکہ اس کا نتیجہ اللہ رب العالمین کی تکذیب کی صورت میں نکلتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی حفاظت کا وعدہ کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کا ہر حال میں پورا ہونا ضروری ہے۔ اور جو کوئی یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ اگر امامت کا کھل کر ذکر کیا جاتا تو اللہ رب العالمین اپنی کتاب کی حفاظت نہیں فرما سکتے تھے ، تو ایسا عقیدہ رکھنے والا انسان کافر ہو جائے گا۔
انا نَحْنُ نَزَلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ [الحجر: 9]
” بیشک ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے، اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔“
امامت پر حجت اور قرآن میں اس کا عدم ذکر:
بقیہ ارکان کی طرح امامت پر حجت قرآن میں اس کا ذکر کئے بغیر قائم نہیں ہو سکتی۔
ہم دوبارہ سے بات شروع کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اللہ تعالی کسی رکن کو اپنے بندوں پر کیسے فرض کر سکتے ہیں۔ جسے تبدیلی کے ڈر سے قرآن میں بیان نہ کیا جا سکے اور پھر ان لوگوں کا کیا گناہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی مراد پر قرآن میں واضح دلیل نہیں پاتے جس طرح کہ باقی ارکان کے واضح دلائل پائے جاتے ہیں۔ پھر ان سے اس کا عقیدہ رکھنے کا مطالبہ ہو اور اس پر ان کا محاسبہ کیا جائے ، اور اس کے بغیر ان کے اعمال قبول نہ کئے جائیں۔ اس چیز کو عقل سلیم تسلیم نہیں کرتی۔ ہمارے لئے بہتر یہی تھا کہ اس مسئلہ میں قرآن سے شیعہ کی اہم ترین دلیل جو کہ جامع اور شامل تھی کی اتباع کریں اور سابقہ بحث سے یہ واضح ہو گیا کہ اس آیت میں ان کے حق میں کوئی دلیل نہیں۔ اور ایسے ہی سنت مطہرہ سے بھی دلیل پیش کی جائے۔
اگر ان کے عقیدہ کے مطابق مسئلہ امامت ان فروعی مسائل میں سے نہیں ہے جن کی تفصیل سنت میں تلاش کی جائے لیکن قرآن سے باہر بھی ان کا استدلال انتہائی کمزور ہے ، یہ بیان کرنے کے لئے ہم حدیث کا بھی ذکر دوسرے مسئلہ میں کر دیتے ہیں۔