کیا سیدنا زکریا علیہ السلام کو درخت نے پناہ دی تھی ؟
تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظ اللہ

سوال :

کیا سیدنا زکریا علیہ السلام کو درخت نے پناہ دی تھی ؟

جواب :

اس بات کی کوئی حقیقت نہیں۔ معراج کے بارے میں ایک لمبی چوڑی روایت میں سیدنا زکریا علیہ السلام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مکالمہ مروی ہے کہ :

قالت بنو إسرائيل: قد غضب إله زكريا لزكريا، فتعالوا حتى نغضب لملكنا فنقتل زكريا، قال فخرجوا فى طلبي ليقتلوني وجاءني الندير فهربت منهم وإبليس أمامهم يدلهم على فلما تخوفت أن لا أعجزهم عرضت لي شجرة فنادتني وقالت إلى إلى وانصدعت لي ودخلت فيها. قال وجاء إبليس حتى أخذ بطرف ردائي والتأمت الشجرة وبقي طرف ردائي خارجا من الشجرة، وجاءت بنو إسرائيل فقال إبليس: أما رأيتموه دخل هذه الشجرة هذا طرف ردائه دخلها بسحره، فقالوا نحرق هذه الشجرة، فاق إبليس: شقوه بالمنشار شقا. قال فشققت مع الشجرة بالمنشار قال له النبى صلى الله عليه وسلم: هل وجدت له مسا أو وجعا قال لا إنما وجدت ذلك الشجرة التى جعل الله روحي فيها.

”بنی اسرائیل نے کہا کہ زکریا کا الٰہ اس سے ناراض ہو گیا ہے، آؤ ہم اپنے بادشاہ کی خاطر زکریا سے ناراض ہو جائیں اور اسے قتل کر دیں۔ وہ مجھے قتل کرنے کے لیے تلاش کرنے لگے۔ ایک شخص نے مجھے اس بات کی اطلاع دی تو میں بھاگ نکلا۔ ابلیس ان لوگوں کے آگے آگے تھا اور میرے بارے میں ان کو بتا رہا تھا۔ جب مجھے خوف ہوا کہ میں مزید بھاگ نہیں پاؤں گا تو ایک درخت میرے سامنے آ کر کہنے لگا : میرے پاس آ جاؤ۔ یہ کہ کر اس کا تنا پھیل گیا۔ میں اس میں داخل ہونے لگا۔ اتنی دیر میں ابلیس نے آ کر میری چادر کا ایک کونہ پکڑ لیا۔ اسی دوران درخت کا تنا لپٹ گیا اور میری چادر کا کونہ درخت سے باہر ہی رہ گیا۔ جب بنی اسرائیل آئے تو ابلیس ان سے کہنے لگا : کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ زکریا اپنے جادو کے ذریعے اس درخت میں داخل ہو گیا ہے۔ یہ رہا اس کی چادر کا کونہ ! بنی اسرائیل کہنے لگے کہ ہم اس درخت کو جلائیں گے۔ ابلیس نے کہا: اسے آرے سے چیر دو۔ یوں آرے سے مجھے درخت کے ساتھ ہی چیر دیا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زکریا علیہ السلام سے پوچھا: کیا اس سے آپ کو کوئی گزند یا تکلیف پہنچی ؟ سیدنا زکریا علیہ السلام نے فرمایا : نہیں، مجھے تو یوں لگا کہ میری روح اللہ تعالیٰ نے درخت ہی میں ڈال دی تھی۔ “

[تاريخ دمشق لابن عساكر : 56/19 ]

لیکن یہ جھوٹی روایت ہے۔ اس کو گھڑنے کا سہرا اسحاق بن بشر بن محمد بن عبداللہ، ابوحذیفہ، بخاری کے سر ہے، جو کہ ”متروک“ اور ”کذاب“ راوی ہے۔

[ ديكهيں : ميزان الاعتدال للذهبي : 184/1۔ 186 ]

سیدنا زکریا علیہ السلام سے منسوب اسی طرح کا واقعہ کچھ تابعین سے بھی بیان کیا گیا ہے، ان سے مروی روایات کا حال بھی ملاحظہ فرمائیں :

سعید بن مسیّب والی روایت [تاريخ دمشق : 207/64]

اس میں علی بن زید بن جدعان راوی ”ضعیف“ ہے۔

وہب بن منبہ والی روایت [ تاريخ دمشق : 55/19]

اس میں عبدالمنعم بن ادریس راوی موجود ہے جو کہ باتفاقِ محدثین ”متروک“ اور ”کذاب“ ہے۔ نیز اس کا باپ ادریس بن سنان، ابوالیاس صنعانی بھی ”ضعیف“ ہے۔

اسی طرح محمد بن اسحاق بن یسار کی بیان کردہ روایت [تاريخ طبري : 536/1]

یہ محمد بن حمید رازی کے غیر معتبر ہونے کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔

معلوم ہوا کہ بعض الناس کا یہ مشہور کرنا کہ سیدنا زکریا علیہ السلام نے درخت سے پناہ مانگی تھی، سفید جھوٹ ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے