کیا خرچہ نہ ہونے کی صورت میں حاکم میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال سکتا ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

کیا خرچہ نہ ہونے کی صورت میں حاکم میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال سکتا ہے
بعض علما اس کو ترجیح دیتے ہیں کہ حاکم ایسی صورت میں ان کے درمیان جدائی ڈال سکتا ہے کیونکہ یہ صورت عورت کو ضرر و نقصان پہنچانے سے خالی نہیں اور قرآن میں اس سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ ایک آیت میں ہے:
وَلَا تُضَارُّوهُنَّ [الطلاق: 6]
”اور انہیں تکلیف نہ پہنچاؤ ۔“
اسی طرح یہ صورت معروف طریقے سے اکٹھے گزر بسر کرنے کے بھی منافی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ :
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ [النساء: 19]
”اور ان کے ساتھ معروف طریقے سے گزر بسر کرو۔“
علاوہ ازیں اس صورت میں عورت کو گھر میں رکھنا صرف نقصان پہنچانے کا ہی باعث ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا تُمُسِكُوهُنَّ ضِرَارًا [البقرة: 231]
”تم انہیں نقصان پہنچانے کے لیے مت روکے رکھو۔“
مزید برآں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا ضرر ولا ضرار
”نہ نقصان اٹھاؤ اور نہ نقصان پہنچاؤ۔ “
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1895 ، كتاب الأحكام: باب من بنى فى حقه ما يضر بجاره ، الصحيحة: 250 ، ابن ماجة: 2340 ، بيهقى: 133/10 ، أحمد: 326/5]
اور ایک روایت میں واضح طور پر موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے متعلق فرمایا جس کے پاس اپنی بیوی پر خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے:
يفرق بينهما
”ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی جائے ۔“
[دارقطني: 297/3 ، بيهقي: 470/7]
امام شوکانیؒ اور نواب صدیق حسن خانؒ بھی اسی کے قائل ہیں۔
بعض علما کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں میاں بیوی کے درمیان جدائی نہیں ڈالی جائے گی بلکہ عورت کو صبر و قناعت کی ترغیب دی جائے گی کیونکہ مرد پر صرف اتنا نفقه و خرچہ ہی واجب ہے جس قدر وہ استطاعت رکھتا ہو جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بیوی کے حق کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اسے کھلائے جب تو کھائے اور اسے پہنائے جب تو پہنے۔“
[حسن صحيح: صحيح ابو داود: 1870 ، كتاب النكاح: باب فى حق المرأة على زوجها ، ابو داود: 2142]
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تو نہ کھائے (یعنی تمہارے پاس کھانے یا پہننے کی استطاعت نہ ہو) تو اپنی بیوی کو کھلانا بھی واجب نہیں لٰہذا پھر نکاح فسخ کیسے ہو سکتا ہے۔
(ابن حزمؒ ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔
[المحلى: 109/10]
(البانیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[التعليقات الرضية على الروضة الندية: 259/2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1