اعتراض کا خلاصہ
بعض افراد سوال کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جو محبوب خدا، وجہ تخلیق کائنات، اور علم کا شہر تھے، ان کے پاس زیادہ علم تھا یا جبرئیل علیہ السلام کے پاس؟ چونکہ رسول اللہ ﷺ جبرئیل سے افضل ہیں، تو پھر جبرئیل رسول اللہ ﷺ کو کیا سکھانے آتے تھے؟ جو ہستی تخلیق کائنات سے پہلے موجود تھی، کیا وہ علم سے محروم ہو سکتی ہے؟
جواب: موازنہ غیر مناسب اور غلط فہمی کا نتیجہ ہے
سوال کا غیر متوازن ہونا
یہ سوال خود ایک غیر متوازن موازنہ پر مبنی ہے۔ صحیح سوال یہ ہوتا کہ دنیا میں سب سے پہلے انسان اور نبی حضرت آدم علیہ السلام زیادہ علم رکھتے تھے یا جبرئیل علیہ السلام؟
قرآنی آیات سے رہنمائی
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح طور پر فرشتوں اور حضرت آدم علیہ السلام کے علم کا موازنہ کیا ہے:
"اور آدم کو (اللہ نے) سارے نام سکھا دیے۔ پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور (ان سے) کہا اگر تم سچے ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتلاؤ۔ وہ بول اٹھے آپ ہی کی ذات پاک ہے جو کچھ علم آپ نے ہمیں دیا ہے اس کے سوا ہم کچھ نہیں جانتے۔ حقیقت میں علم و حکمت کے مالک تو صرف آپ ہیں۔”
(سورۃ البقرۃ، آیت 29-33)
یہ آیات ثابت کرتی ہیں کہ انسان کو اللہ نے ایسی عقل عطا کی ہے جس سے وہ مشاہدہ اور تجزیہ کر کے علم حاصل کر سکتا ہے، جبکہ فرشتے محدود علم رکھتے ہیں، جو صرف اللہ کے دیے ہوئے علم تک محدود ہے۔
دو طرح کے علوم: وحی سے حاصل شدہ علم اور مشاہداتی علم
1. وحی کا علم (Revealed Knowledge):
یہ وہ علم ہے جو اللہ براہِ راست اپنے نبیوں کو عطا کرتا ہے، جیسے قرآن مجید۔ مثال کے طور پر:
"اور آسمانوں کو ہم ہی نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ہم ہی اس کی توسیع کر رہے ہیں۔”
(سورۃ الذاریات، آیت 47)
یہ علم پہلے سے قرآن میں موجود تھا۔
2. مشاہداتی علم (Acquired Knowledge):
یہ علم انسان اپنی عقل، مشاہدے اور تجربے سے حاصل کرتا ہے۔ مثال کے طور پر 1929 میں ایڈون ہبل نے مشاہدہ کیا کہ کائنات پھیل رہی ہے، اور اس سے "بگ بینگ تھیوری” کا تصور آیا۔
انسان کو دونوں طرح کے علوم سے نوازا گیا:
- فرشتے صرف وحی کے علم (Revealed Knowledge) تک محدود ہیں۔
- انسان کو وحی کے ساتھ مشاہداتی علم (Acquired Knowledge) سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت دی گئی ہے۔
رسول اللہ ﷺ اور جبرئیل علیہ السلام کے تعلق کی وضاحت
جبرئیل علیہ السلام کا کام:
جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کو "سکھانے” نہیں بلکہ اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے آتے تھے۔ وہ وحی لانے والے قاصد تھے، استاد نہیں۔ نبی کریم ﷺ کے پاس اللہ کا دیا ہوا علم کامل تھا، اور جبرئیل علیہ السلام کا علم اس سے کم درجے کا تھا۔
وحی کے ذرائع:
نبی کریم ﷺ نے واضح فرمایا کہ وحی تین طریقوں سے آتی ہے:
- اچھے خواب کے ذریعے۔
- جاگتی حالت میں دل پر القاء کے ذریعے۔
- فرشتے کے ذریعے۔
لہٰذا، وحی کے تمام ذرائع فرشتے تک محدود نہیں تھے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کے علم کے معاملے میں فوقیت نہیں رکھتے تھے۔
انسان کی فضیلت اور فرشتوں کی محدودیت
انسان کو علم حاصل کرنے کے لیے عقل دی گئی، جس سے وہ پوری کائنات کا مشاہدہ کر سکتا ہے اور نتائج اخذ کر سکتا ہے۔
- فرشتے صرف وہی کرتے ہیں جو انہیں کہا جاتا ہے۔ ان کے پاس عقل یا تجزیے کی صلاحیت نہیں ہے۔
خلاصہ
جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کو علم سکھانے نہیں آتے تھے بلکہ وحی پہنچانے آتے تھے۔ نبی کریم ﷺ وحی کے علم کے علاوہ مشاہداتی علم میں بھی کامل ہیں، جو فرشتوں کے پاس نہیں ہوتا۔