کیا سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اپنے باپ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے نیچے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر اٹھا لیا تھا؟
جواب: ثابت نہیں ہے ، یہ روایت (طبقات ابن سعد: 99/8 ، مغازی واقدی: 792/2 ، سیرۃ ابن ہشام: 392/2 ، تاریخ ابن عساکر: 150/59) میں آتی ہے ۔
➊ محمد بن عمر واقدی متروک اور کذاب ہے ، لہٰذا روایت جھوٹی ہے ۔
➋ یہ امام زہری رحمہ للہ کی مرسل ہے اور مرسل حجت نہیں ہوتی ۔
ایک جھوٹ !
سیدہ سفینہ مولیٰ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
إن النبى صلى الله عليه وسلم كان جالسا فمر أبو سفيان بعير ومعه معاوية وأخ له ، أحدهما يقود البعير والآخر يسوقه ، فقال رسول الله صلى عليه وسلم: لعن
الله الحامل والمحمول والفائد والسائق
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ اونٹ پر سوار سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی (یزید) بھی ہمراہ تھے ۔ ایک بھائی نے اونٹ آگے سے پکڑا ہوا تھا اور دوسرا پیچھے سے ہانک رہا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار، سواری ، قائد اور ہانکنے والے پر اللہ کی لعنت ہو ۔“ [أنساب الأشراف للبلاذري: ١٢٩/٥ ، ح: ٣٧٢]
تبصرہ:
انساب الأشراف بے سند اور بے بنیاد کتاب ہے ۔ اس میں منقول روایات نا قابل اعتبار ہیں ۔
سیدنا عائذ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إن أباسفيان ، أتى على سلمان ، وصهيب ، وبلال فى نفر ، فقالوا: والله ما أخذت سيوف الله من عنق عدو الله مأخذها ، قال: فقال أبو بكر: أتقولون هذا لشيخ قريش وسيدهم ، فأتى النبى صلى الله عليه وسلم فأخبره ، فقال: يا أبا بكر لعلك أغضبتهم ، لئن كنت أغضبتهم ، لقد أغضبت ربك فأتاهم أبو بكر فقال: يا إخوتاه أغضبتكم؟ قالوا: لا يغفر الله لك يا أخي
”ابوسفیان رضی اللہ عنہ (قبول اسلام سے قبل) سیدنا سلمان ، سیدنا صہیب اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہم کے پاس سے گزرے ، تینوں کہنے لگے: اللہ کی قسم ! اللہ کی تلواروں نے دشمن کی گردنیں کما حقہ نہیں ماری ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قریش کے بزرگ اور سید کو ایسی بات کہتے ہو؟ بعد میں خود نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے پاس آئے اور ساری بات بتائی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر ! کہیں انہیں رنجیدہ تو نہیں کر دیا ۔ اگر ایسا کر دیا ، تو سمجھو کہ اللہ کو ناراض کر دیا ۔ سید نا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان صحابہ کے پاس آئے اور کہا کیا: میں نے آپ کو ناراض کر دیا ہے؟ کہنے لگے: نہیں ، بھائی جان ! اللہ آپ کو معاف کرے ۔“ [صحيح مسلم: ٢٥٠٤]
تبصره:
یہ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام سے پہلے کا واقعہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے ۔ شراح حدیث کا اتفاق ہے کہ یہ صلح حدیبہ کے بعد اور فتح مکہ سے قبل کا واقعہ ہے ۔