کوئی عیب نکل آنے پر نکاح فسخ کرنا جائز ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

کوئی عیب نکل آنے پر نکاح فسخ کرنا جائز ہے
➊ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو غفار کی عالیہ نامی خاتون سے نکاح کیا جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خلوت میں داخل ہوئی اور اس نے اپنا لباس اتارا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پہلو میں پھلیہری (برص) کے داغ دیکھے تو فرمایا:
البسي ثيابك والحقى بأهلك
”اپنے کپڑے پہن لے اور اپنے گھر چلی جا ۔“
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے حکم ارشاد فرمایا کہ اسے مہر دے دیا جائے۔
[ضعيف: إرواء الغليل: 1912 ، أحمد: 493/3 ، الكامل لابن عدي: 306 ، حاكم: 34/4 ، السنن الكبرى للبيهقى: 213/7]
پہلی بات یہ ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں مذکور مسئلے کے لیے کوئی دلیل نہیں کیونکہ
الحقى بأهلك
كے الفاظ طلاق سے کنایہ ہیں جیسا کہ نواب صدیق حسن خانؒ اور شیخ البانیؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے ۔
[الروضة الندية: 65/2 ، التعليقات الرضية على الروضة: 203/2]
➋ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”جو شخص کسی عورت سے نکاح کرے پھر اس سے ہم بستری کرے اور اسے معلوم ہو کہ وہ عورت برص کے مرض میں مبتلا ہے ، یا دیوانی ہے یا کوڑھی کی مریضہ ہے تو چونکہ شوہر نے اسے چھوا ہے اس لیے وہ حق مہر کی مستحق ہے اور اس مہر کی رقم اُس سے وصول کی جائے گی جس نے اسے دھو کہ دیا ۔“
[ضعيف: سعيد بن منصور: 818 ، مؤطا: 526/2 ، ابن أبى شيبة: 175/4 ، دار قطني: 266/3 ، يه حديث منقطع هونے كي وجه سے ضعيف هے۔ التعليق على سبل السلام للشيخ صبحى حلاق: 94/6]
➌ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اس طرح کی روایت مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ اگر عورت کو ”قرن“ (ایسی بیماری جس کی وجہ سے عورت کی شرمگاہ میں گوشت ابھر آتا ہے) کی بیماری ہو تو اس کا شوہر خود مختار ہو گا۔ اگر مرد نے اس عورت سے مباشرت کی ہو تو شرمگاہ کو حلال کرنے کے بدلے میں مہر دینا ہوگا ۔
[ضعيف: سعيد بن منصور: 820 ، بيهقي: 215/7 ، شيخ صبحي حلاق نے اسے ضعيف كها هے۔ التعليق على سبل السلام: 95/6]
➍ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نامرد آدمی کے لیے ایک سال کی عدت کا فیصلہ کیا ۔
[ضعيف: ابن أبى شيبة: 206/4 ، شيخ صبحي حلاق نے اسے ضعيف كها هے۔ التعليق على سبل السلام: 96/6]
➎ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ چار عیوب کی وجہ سے عورتوں کو لوٹایا جا سکتا ہے:
پاگل پن ، جذام ، برص اور شرمگاہ کی بیماری (آتشک یا سوزاک وغیرہ ) ۔
[ضعيف: بيهقي: 215/7 ، امام صنعانيؒ نے اسے منقطع كها هے ۔ سبل السلام: 1353/3]
چونکہ مذکورہ روایات و آثار ضعیف ہیں لہذا ان سے یہ ثابت کرنا درست نہیں کہ محض عیوب کی وجہ سے ہی نکاح فسخ ہو جاتا ہے یا یہ کہ وجوب مہر کے لیے محض خلوت ہی کافی ہے ، تعلق زن و شوہر ضروری نہیں ۔
(جمہور ) ہر وہ عیب اور نقص جو میاں بیوی کے درمیان نفرت کا موجب ہو اور اس کی وجہ سے مقصد نکاح بھی حاصل نہ ہو سکے ، یا وہ عیب جو وظیفہ زوجیت میں دخل انداز ہو ، فسخ نکاح اور اختیار کا سبب بن جاتا ہے۔
(ابو حنیفہؒ ، ابو یوسفؒ) خاوند بیوی کو کسی وجہ سے بھی نہیں رد کر سکتا کیونکہ اس کے اختیار میں طلاق ہے اور بیوی صرف اس صورت میں شوہر کو رد کر سکتی ہے کہ اس کا آلہ تناسل کٹا ہوا ہو یا اس قدر ڈھیلا ہو کہ قوت جماع نہ رکھتا ہو۔
(ابن حزمؒ ، اہل ظاہر ) کسی بھی عیب کی وجہ سے نکاح فسخ نہیں کیا جا سکتا۔
[الأم: 84/5 ، المبسوط: 95/5 ، الخرشي: 238/3 ، المغنى: 112/7 ، المحلى: 109/10 ، نيل الأوطار: 239/4]
(ابن تیمیہؒ ) میاں بیوی میں سے جس میں بھی جذام ، برص اور پاگل پن ظاہر ہو جائے تو دوسرا فسخ نکاح کا حق رکھتا ہے۔
[فتاوى النساء: ص/103]
(ابن قیمؒ) انہوں نے جمہور کے موقف کو ترجیح دی ہے۔
[زاد المعاد: 180/5]
(راجح) کسی عیب کی وجہ سے فسخ نکاح شریعت میں کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں البتہ طلاق اور خلع مشروع ہے لٰہذا اگر کوئی ایسا عیب ظاہر ہو جائے جس کی وجہ سے اکٹھے رہنا دشوار ہو تو مرد طلاق دے سکتا ہے اور عورت خلع لے سکتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1