وَ عَن أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أُم عَبْدِ اللهِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ( (يَغُزُو جَيْشُ الْكَعْبَةَ فَإِذَا كَانُوا بِبَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ يُحْسَفُ بِأَوَّلِهِمْ وَ آخِرِهِمْ)) قَالَتْ: قُلتُ يَا رَسُولَ اللهِ كَيْفَ يُحْسَفُ بأَولهم و آخِرِهِمْ وَفِيهِمْ أَسْوَاقُهُمْ وَ مَنْ لَيْسَ مِنْهُم !؟ قَالَ: ( (يُخْسَفُ) بِاَوَّلِهِمْ وَ آخِرِهِمْ، ثُمَّ يُبْعَثُونَ عَلَى نِيَّاتِهِمْ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ – هَذَا لَفُظُ الْبُخَارِى .
ام المومنین ام عبد اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”ایک لشکر خانہ کعبہ پر لشکر کشی کرے گا پس جب وہ بیداء (کسی چٹیل میدان) میں پہنچے گا تو ان کے اول و آخر سب کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا ۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: ”میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! ان کے اول و آخر سب کو کیسے دھنسا دیا جائے گا، جب کہ ان میں بازار والے بھی ہوں گے اور کچھ ایسے بھی ہوں گے جو ان میں سے نہیں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ”ان کے اول و آخر سب کو دھنسا دیا جائے گا، پھر (روز قیامت ) انہیں ان کی نیتوں کے مطابق اٹھایا جائے گا۔“ (متفق علیہ ۔ یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ )
توثيق الحديث:
[ أخرجه البخارى: 338/4 – فتح ، ومسلم 2884]
غريب الحديث:
جيش: ”لشکر “ یہ کون سا لشکر ہے اور اس کا وقوع کب ہو گا؟ اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لشکر امام مہدی علیہ السلام کو قتل کرنے کے لیے تیار کیا جائے گا اور وہ بیت اللہ میں پناہ گزین ہوں گے۔ یہ شکر اسی امت میں سے ہوگا جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں اس کی صراحت ہے لیکن کعبہ کو گرانے والے حبشہ سے ہوں گے، اس کی دلیل یہ ہے کہ حبشہ والے بیت اللہ پر غلبہ حاصل کر لیں گے لیکن یہ شکر وہاں تک پہنچنے سے پہلے ہی دھنسا دیا جائے گا۔
البيداء : ”وہ چنیل میدان جہاں کوئی چیز نہ اگتی ہو ۔ “
حدیث کے بعض راویوں نے اس میدان کی وضاحت کی ہے، صحیح مسلم میں اسے بیدائے مدینہ کہا گیا ہے اور اس سے وہ معروف جگہ مراد ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے نیز وہ اونچی جگہ جو ذوالحلیفہ سے آتے ہوئے مکہ کی طرف ہے۔
الخسف : ”زمین میں پھنس جانا ۔“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمِنْهُمْ مَنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ : [العنكبوت: 40]
”ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا۔“
نیز فرمایا:
فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الْأَرْضَ : [القصص: 81]
”ہم نے اسے اس کے محل سمیت زمین میں دھنسا دیا۔“
أسواقهم : ”سوق“ کی جمع ہے، اس کا معنی کاروباری اور منڈی کے لوگ ہیں یا پھر اس سے رعایا مراد ہے۔
يبعثون على نياتهم : ”انہیں ان کی نیتوں کے مطابق اٹھایا جائے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ انہیں قبروں سے اٹھائے گا اور ان کے ارادوں کے مطابق ان کا محاسبہ کرے گا اور اس کے مطابق انہیں جزا دے گا۔ پس اس روز اللہ تعالی ملازم طبقہ، مجبور لوگوں اور سوچ سمجھ کر اس لشکر میں شریک ہونے والے جنگجوؤں کے درمیان فرق کرے گا۔
فقه الحدیث:
➊ ظلم و جور اور بغاوت و سرکشی کے مرتکبین کی ہم نشینی اختیار کرنے سے بچنا چاہیے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس ہم نشین کا انجام بھی انہی ظالموں کے ساتھ ہو جائے۔
➋ جس قوم میں معصیت و نا فرمانی بڑھ جائے اس سے علیحدگی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ دوسروں کے گناہ اور ان کی سزا بھی انسان کو گھیر لیتے ہیں۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعمال کا دار و مدار اور اعتبار عامل کی نیت کے مطابق ہے۔
➍ یہ پیش گوئیاں غیب کی باتوں میں سے ہیں، جن پر اللہ تعالیٰ نے انہیں مطلع فرمایا اور یہ مسائل ایمانیات میں سے ہیں جن پر ایمان و اعتقاد واجب ہے اور کسی کو اس بارے تشویش نہیں ہونی چاہیے کہ یہ حدیث خبر واحد ہے، کیونکہ ہمارے نزدیک صحیح خبر واحد عقائد اور احکام شرعیہ میں یکساں حجت ہے۔ خبر واحد کے حجت ہونے پر شارح کتاب کی کتاب الأدلة والشواهد فى وجوب الأخذ بخبر الواحد فى الأحكام والعقائد مفید ہے۔
➎ اس حدیث میں ایک اشکال ہے (جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی وہ اشکال ہوا ) کہ جو لوگ قتال کی نیت سے اس لشکر میں شامل نہیں تھے، انہیں عذاب کیوں ہو گا؟ حالانکہ عذاب کا سبب تو قتال ہے۔
اس اشکال کو واضح کرنے کے لیے بہت سے جواب دیئے گئے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب عذاب آتا ہے تو وہ عمومی طور پر سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور پھر لوگ اپنی نیتوں کے مطابق اٹھائے جائیں گے ۔ مجبور، رعایا اور مسافر اس لیے عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں کہ انھوں نے اس فتنے سے بچنے کی کوشش نہیں کی اور یہ عذاب صرف ظالموں تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ سیلاب کی طرح سب کو بہا کر لے جاتا ہے اور اس کا شکار وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو اس برائی اور ظلم میں شریک نہیں ہوتے لیکن جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے تو یہ نیک لوگ اس برائی کو ہوتا دیکھتے ہیں، اسے روکنے کی کوشش نہیں کرتے اور نہ ان کے چہرے پر غم و غصہ کی کوئی علامت نظر آتی ہے۔ پس ایسے نیک لوگ بھی عذاب سے دو چار ہو جاتے ہیں اور بچتے صرف وہی نیک لوگ ہیں جو امر بالمعروف اور نهي عن المنكر پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
قلُوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ اُولُوا بَقِيَّة يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّنْ انجینا منھم واتبع الذین ظَلَمُوا مَا أَتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ . وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ O الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ [هود: 116-117]
”گزشتہ امتوں میں ایسے نیک لوگ کیوں نہ ہوئے جو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے بجز چند لوگوں کے جن کو ہم نے ان میں سے عذاب سے بچا لیا تھا اور جولوگ ظالم تھے وہ انہی باتوں کے پیچھے تھے، جن میں عیش و آرام تھا اور وہ مجرم تھے اور آپ کے رب کا یہ دستور نہیں کہ بستیوں کو نا حق ہلاک کر دے حالانکہ ان کے رہنے والے نیکو کار اور مصلح ہوں۔ “
اس آیت میں اللہ تعالی کی اس سنت کی طرف اشارہ ہے جو سابقہ امتوں کے بارے میں رہی ہے، پس جس امت میں شرک کی برائی پھیل جائے اور ان میں سے کوئی ان کی اصلاح کا بیڑا اٹھالے تو وہ امت ناجیہ ہے اور وہ عذاب و ہلاکت سے دو چار نہیں ہوگی۔ رہی وہ امت جس میں شرک و فساد پھیل جائے اور وہاں ان میں سے کوئی ان کی اصلاح کا بیڑا نہ اٹھائے اور اس برائی کی مذمت بیان نہ کرے تو ایسی قوم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ انہیں ہلاک کر دے خواہ یہ ہلاکت استیصال سے ہو یا انحلال و اختلال کے ذریعے، ان دونوں کا انجام زوال و استبدال ہے۔ اس سے دعوت الی اللہ کی قدر و قیمت اور اہمیت واضح ہوتی ہے کہ جب ملک میں فساد پھیل جاتا ہے تو اللہ کی زمین کو اس فساد سے پاک کرنا نہایت ضروری ہو جاتا ہے، اگر کسی قوم یا قبیلے کے لوگ اس فریضہ کو ادا نہیں کرتے تو وہ اللہ تعالیٰ کے غضب و ناراضی اور عذاب کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔