کسی عیب کے ازالہ کے لیے زینت کرنے کا حکم
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

حصول زینت کی کاروائیوں کا کیا حکم ہے ؟ کیا ایسے علم کا سیکھنا جائز ہے ؟

جواب :

زینت کا حصول دو قسم کا ہوتا ہے ایک تو کسی حادثے وغیرہ کے نتیجے میں لاحق عیب کا ازالہ کرنا، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو سونے کی ناک لگوانے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی جس کی ناک ایک جنگ میں کٹ گئی تھی۔ دوسرے یہ کہ اضافی حسن و جمال کا حصول مطلوب ہو۔ اس سے کسی عیب کا ازالہ نہیں بلکہ حسن میں مزید نکھار کرنا مقصود ہوتا ہے، تو یہ ناجائز اور حرام ہے اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بال نوچنے والی اس کا مطالبہ کرنے والی، مصنوعی بال لگانے والی لگوانے والی، سرمہ بھرنے والی سب پر لعنت فرمائی ہے اور یہ اس لئے کہ ان کاروائیوں کا مقصد ازالہ عیب نہیں بلکہ حسن میں کمال پیدا کرتا ہو تا ہے۔ جہاں تک بیوٹی سرجری کا علم حاصل کرنے والے طالب علم کا تعلق ہے تو اس علم کے سیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہاں اس علم کو حرام مواقع پر استعمال نہیں کرنا چاہیے، بلکہ جو شخص ایسا کرنا چاہے تو اسے اس سے پرہیز کرنے کی تلقین کرنی چاہئیے، اس لئے کہ وہ حرام ہے کیونکہ عموماً اگر ڈاکڑ کسی بات کی تلقین کرے تو لوگوں پر اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔
(شیخ ابن جبرین)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے