نذر و نیاز عبادت ہے اور اسلام میں عبادت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے۔ کسی مخلوق کے نام پر نذر و نیاز کرنا حرام اور شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی بزرگ یا ولی کے نام پر منت مانتا ہے، قبروں پر چڑھاوے چڑھاتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ صاحبِ قبر اس کی مشکلات حل کرے گا یا اس کی سفارش کرے گا، تو یہ شرک فی العبادت ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو مذمت کے ساتھ ذکر کیا ہے:
وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْـاَنْعَامِ نَصِیبًا…
(الأنعام 6: 136)
اس آیت میں واضح کیا گیا ہے کہ مشرکین اپنے دیوتاؤں کا حصہ اللہ کے لیے مختص نہیں کرتے، لیکن اللہ کا حصہ اپنے دیوتاؤں کے لیے وقف کرتے ہیں، جو کہ ایک باطل اور گمراہ کن عمل ہے۔ مزید برآں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا أُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ
(البقرۃ 2: 173)
اس آیت میں اس چیز کو حرام قرار دیا گیا ہے جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا جائے۔
شرعی اصول
صحابی ٔرسول، سیدنا ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
نَذَرَ رَجُلٌ عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَّنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ، فَأَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’ہَلْ کَانَ فِیہَا وَثَنٌ مِّنْ أَوْثَانِ الْجَاہِلِیَّۃِ یُعْبَدُ ؟‘ قَالُوا : لَا، قَالَ : ’ہَلْ کَانَ فِیہَا عِیدٌ مِّنْ أَعْیَادِہِمْ ؟‘، قَالُوا : لَا، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’أَوْفِ بِنَذْرِکَ، فَإِنَّہٗ لَا وَفَائَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ‘ ۔
’’ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک میں بُوانہ مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : میں نے بوانہ مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مان لی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا اس جگہ جاہلیت کے استہانوں میں سے کوئی استہان تھا، جس کی عبادت کی جاتی ہو؟ صحابہ کرام نے عرض کیا : نہیں۔ فرمایا : کیا اس جگہ اہل جاہلیت کا کوئی میلہ لگتا تھا؟ عرض کیا : نہیں۔ فرمایا : اپنی نذر کو پورا کر لو۔ بلاشبہ اللہ کی نافرمانی میں کسی نذر کو پورا کرنا جائز نہیں۔‘‘
(سنن أبي داوٗد : 3313، المعجم الکبیر للطبراني : 75/2،76، ح : 340، وسندہٗ صحیحٌ)
سیدنا کردم بن سفیان ثقفی رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت میں نبوی الفاظ یہ ہیں:
’ہَلْ بِہَا وَثَنٌ أَوْ عِیدٌ مِّنْ أَعْیَادِ الْجَاہِلِیَّۃِ ؟‘ ۔
’’کیا اس جگہ کوئی بت یا جاہلیت کے میلوں میں سے کوئی میلہ تھا؟‘‘
(سنن أبي داوٗد : 3315، وسندہٗ حسنٌ)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک صحابیہ نے عرض کیا :
إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَذْبَحَ بِمَکَانِ کَذَا وَکَذَا، مَکَانٌ کَانَ یَذْبَحُ فِیہِ أَہْلُ الْجَاہِلِیَّۃِ، قَالَ ’لِصَنَمٍ ؟‘، قَالَتْ : لَا، قَالَ ’لِوَثَنٍ ؟‘، قَالَتْ : لَا، قَالَ : ’أَوْفِي بِنَذْرِکِ‘ ۔
’’میں نے فلاں جگہ پر جانور ذبح کرنے کی نذر مانی ہے۔ اس جگہ پر اہل جاہلیت جانور ذبح کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : وہ کسی بت کے لیے ذبح کرتے تھے؟ صحابیہ نے عرض کیا : نہیں۔ فرمایا : کسی مُورتی کے لیے ذبح کرتے تھے؟ عرض کیا : نہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنی نذر پوری کر لو۔‘‘
(سنن أبي داوٗد : 3312، وسندہٗ حسنٌ)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جن جگہوں پر شرک اور کفر ہوتا ہو، وہاں جائز نذر پوری کرنا بھی ممنوع اور حرام ہو جاتا ہے، بلکہ شرک تک پہنچنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر پوری کرنے کے لیے دو سوالات کیے:
➊ کیا وہاں غیر اللہ کی عبادت ہوتی ہے؟
➋ کیا وہاں مشرکوں کا کوئی میلہ یا تہوار لگتا ہے؟
اگر ان میں سے کسی ایک کا جواب بھی اثبات میں ہو تو نذر پوری کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ نبوی ضابطہ آج بھی برقرار ہے۔
مزاروں پر رسومات
مزاروں اور آستانوں پر ہونے والی رسومات جیسے نذر و نیاز کو بعض لوگوں نے عوام کو دھوکہ دینے کے لیے جائز قرار دیا ہے تاکہ ان کے مال کو ہڑپ کیا جا سکے۔ بریلوی عالم احمد یار خان نعیمی اس عمل کو نذر لغوی قرار دے کر جائز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ تقسیم قبیح بدعت ہے جو اہل سنت والجماعت کی کتب میں کہیں موجود نہیں۔
صحابہ کرام کا عمل
کیا صحابہ کرامؓ رسول اللہ ﷺ سے محبت نہیں کرتے تھے؟ کیا انہوں نے کبھی کسی بزرگ کے نام پر نذر و نیاز کی؟ اگر یہ عمل جائز ہوتا تو صحابہ کرامؓ بھی اس سے محروم نہ رہتے۔ نذر و نیاز مخلوق کے لیے کبھی بھی جائز نہیں ہوئی، اور یہ بات اہل علم کے نزدیک متفق علیہ ہے۔
علامہ ابن قیم اور دیگر علما کا موقف
شیخ الاسلام ثانی، علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"مشرکین اللہ کے سوا ہر قسم کی مخلوق کو نذر و نیاز کے لائق قرار دینے میں جلدی کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پتھر، درخت یا کسی ولی کے پاس نذر قبول ہوتی ہے۔”
علامہ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مشرکین اپنی حاجات کے لیے غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں اور ان کے نام پر نذر کرتے ہیں، جبکہ قرآن کہتا ہے:
فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا
(الجنّ 72: 18)
نذر لغوی کا دعویٰ اور اس کا رد
احمد یار خان نعیمی کی یہ بات کہ "اولیاء اللہ کے نام کی نذر شرعی نہیں، لغوی ہے” محض لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے ہے۔ نذر و نیاز کی یہ تقسیم نہ تو فقہ اسلامی میں کہیں موجود ہے اور نہ ہی شریعت میں اس کی کوئی بنیاد ہے۔
اہل علم نے واضح طور پر کہا ہے کہ مخلوق کے نام کی نذر و نیاز حرام ہے اور اس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ مشہور فقہا جیسے امام ابن عابدین شامی اور علامہ آلوسی نے بھی اس عمل کو شرک اور حرام قرار دیا ہے۔
فقہ حنفی کا موقف
فقہ حنفی کی کتب میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ قبروں پر نذر و نیاز کرنا حرام ہے۔ فقہائے احناف کے اقوال اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ مخلوق کے نام پر نذر و نیاز دینا شرک اور کفر کے مترادف ہے۔
مُردوں کا تصرف: ایک باطل عقیدہ
اسلامی تعلیمات کے مطابق، یہ عقیدہ کہ مُردے سنتے، دیکھتے، اُمور میں تصرف کرتے، غیب جانتے، دعائیں سنتے اور نوازتے ہیں، سراسر باطل ہے۔ یہ عقیدہ شرک اور کفر کے زمرے میں آتا ہے، اور اس کی حمایت کسی بھی شرعی دلیل سے ممکن نہیں۔
امام احمد رضا خان بریلوی کے ملفوظات میں ایک واقعہ
امام احمد رضا خان بریلوی کے ملفوظات میں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت سیدی احمد بدوی کے مزار پر ایک تاجر کی کنیز پر حضرت عبد الوہاب کی نظر پڑی، جسے بعد میں صاحبِ مزار نے ہبہ کر دیا۔ یہ قصہ مردوں کے تصرف کے عقیدے کی مثال کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، جو کہ نہ صرف غیر شرعی ہے بلکہ زنا اور بدکاری جیسے افعال کو جائز قرار دینے کی راہ ہموار کرتا ہے۔
اہل قبور کی قدرت: ایک غلط فہمی
یہ عقیدہ کہ اہل قبور زندہ لوگوں کے دلوں کے بھید جانتے ہیں، ان سے بات چیت کرتے ہیں، اور دنیا کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں، دینِ اسلام سے منحرف ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ یہ لوگ دینِ محمدی سے دور جا چکے ہیں اور کفر و شرک کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ مشرکین مکہ کے عقائد سے بھی بدتر ہے۔
نذر و نیاز کی تاویل
مفتی احمد یار خان نعیمی اس عمل کو ایک اور غیر معقول تاویل کے ذریعے جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، جہاں وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نذر کا صیغہ اللہ کے لیے ہوتا ہے اور شیخ کی قبر کے فقراء اس کے مصرف ہوتے ہیں۔ اس قسم کی تاویل دین میں ایک بے جا اضافہ ہے اور قرآن و سنت کے احکامات کے خلاف ہے۔
سیدہ مریمؑ کی والدہ نے اللہ تعالیٰ کے لیے جو نذر مانی تھی، وہ عبادت کے لیے وقف تھی، اور اللہ تعالیٰ نے اسے قبول بھی کیا، جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے:
فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ
(آل عمران 3: 37)
مگر قبروں پر نذر و نیاز کا عمل قرآن و سنت کی روشنی میں سراسر حرام اور شرک ہے۔
نذر و نیاز کا شرعی حکم
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا کہ:
"اللہ کی نافرمانی میں کسی نذر کو پورا کرنا جائز نہیں۔”
(سنن أبي داوٗد : 3313)
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جن مقامات پر شرک یا جاہلیت کی رسومات ہوتی تھیں، وہاں نذر و نیاز ادا کرنا شرعی طور پر ممنوع ہے۔
ابن تیمیہ کا موقف
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مشرکین کی میلہ گاہوں اور بتوں کے مقامات پر جانور ذبح کرنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، اور یہ عمل اللہ کی رضا کی بجائے شرک کی طرف لے جاتا ہے۔
نذر و نیاز: حرام اور باطل
قبروں پر نذر و نیاز، چاہے وہ اللہ کے نام پر بھی ہو، شرعی اعتبار سے ناجائز اور ممنوع ہے۔ فقہاء اور علمائے کرام نے بھی اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مخلوق کے لیے نذر و نیاز حرام ہے۔
نذر کی لغوی، عرفی اور شرعی تقسیم: ایک جائزہ
جناب احمد یار خان نعیمی کی طرف سے نذر کی لغوی اور شرعی تقسیم کا دعویٰ کیا گیا ہے، جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نذر کا لغوی معنیٰ "نذرانہ” ہے، اور اس لحاظ سے اولیاء اللہ کے لیے نذر جائز قرار دی جا سکتی ہے، جبکہ شرعی نذر اللہ کے لیے مانی جاتی ہے۔
حدیث کا سیاق و سباق:
نعیمی صاحب نے ایک حدیث کا حوالہ دیا جس میں ایک سیاہ فام لونڈی کی نذر کا ذکر ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ سے صحیح و سلامت واپسی پر دَف بجانے کا ارادہ رکھتی تھی۔ اس حدیث کو نعیمی صاحب نے ’’بعض بیویوں‘‘ اور ’’جنگ اُحد‘‘ کے ساتھ غلط طور پر جوڑ دیا۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے سیاق کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس نذر کو پورا کرنے کی اجازت اس لیے دی، کیونکہ یہ جائز کام تھا اور اس کا مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محفوظ واپسی پر خوشی کا اظہار تھا، نہ کہ عبادت یا اولیاء کے لیے نذرونیاز۔
نذر کی لغوی اور شرعی تقسیم کا رد
نعیمی صاحب کا یہ دعویٰ کہ نذر کی دو اقسام ہیں—لغوی اور شرعی—اور کہ لغوی نذر اولیاء اللہ کے لیے جائز ہے، شرعی اعتبار سے ایک گمراہ کن اور بدعتی تقسیم ہے۔ یہ تقسیم قرآن و سنت، اور اہل علم کی رائے کے مطابق ناقابل قبول ہے۔
عبادات کے لغوی اور شرعی معنیٰ:
نعیمی صاحب نے طواف کے دو معنیٰ—لغوی اور شرعی—کی مثال دی، اور اسی طرح نذر کو بھی دو معنوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اگر اس منطق کو قبول کر لیا جائے، تو کل کو لوگ قبروں کا طواف، مخلوق کے لیے رکوع، سجدہ، نماز، اور حج کو بھی لغوی معنوں میں جائز قرار دینے لگیں گے، جو کہ شرعی طور پر سراسر حرام اور شرک ہے۔
اہل حدیث کے عالم حافظ خواجہ محمد قاسم رحمہ اللہ نے اس مسئلے کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ یہ استدلال تب درست ہوتا، اگر یہ ثابت کیا جا سکے کہ زندہ یا مردہ اولیاء کی قبروں کا طواف یا انہیں سجدہ لغوی معنوں میں جائز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لغوی اور شرعی کا یہ فرق عبادات میں لاگو نہیں ہو سکتا۔
غلام رسول سعیدی کا رد
بریلوی عالم غلام رسول سعیدی نے اس لغوی اور شرعی نذر کی تقسیم کو سختی سے رد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ منطق قبول کی جائے تو غیر اللہ کے لیے تمام عبادات—جیسے سجدہ، طواف، روزہ اور نماز—کو بھی لغوی قرار دے کر جائز قرار دیا جا سکتا ہے، جو کہ سراسر باطل ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ نذر، سجدہ، طواف اور دیگر عبادات بالاتفاق اللہ کے لیے مخصوص ہیں، اور انہیں غیر اللہ کے لیے لغوی معنوں میں جائز قرار دینا شریعت میں ایک بہت بڑا انحراف ہے۔
خلاصہ
➊ نذر کی لغوی اور شرعی تقسیم شرعی طور پر ناقابل قبول ہے۔
➋ عبادات جیسے نذر، سجدہ، طواف، نماز اور روزہ صرف اللہ کے لیے ہیں۔
➌ لغوی معنیٰ کے سہارے غیر اللہ کے لیے عبادات کو جائز قرار دینا شرک کے دروازے کھولنے کے مترادف ہے۔
➍ اس لیے، نذر کی لغوی اور شرعی تقسیم ایک گمراہ کن تصور ہے جسے اسلامی تعلیمات میں کوئی جگہ نہیں دی جا سکتی۔
غیر اللہ کی قسم: ایک مغالطہ
مفتی احمد یار خان نعیمی نے ایک مغالطہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ غیر اللہ کی قسم کھانا شرعاً منع ہے، مگر انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ قرآن و حدیث میں غیر اللہ کی قسمیں موجود ہیں، جیسے قرآن میں {وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُونِ} (التین 95:1) وغیرہ۔ نیز، انہوں نے ایک حدیث کا حوالہ دیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مبینہ طور پر فرمایا: "أَفْلَحَ، وَأَبِیہِ (اس کے باپ کی قسم! وہ کامیاب ہو گیا)۔” ان کے مطابق، شرعی قسم صرف اللہ کے لیے ہونی چاہیے، مگر لغوی قسم، جو محض تاکیدِ کلام کے لیے ہو، جائز ہے۔
اس مغالطے کا رد
غلام رسول سعیدی (بریلوی عالم) نے اس دلیل کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ غیر اللہ کے لیے قسم کا ذکر قرآن و حدیث میں آیا تو اس میں ایک خاص سیاق کے تحت تاویل کی جاتی ہے۔ لیکن نذر کا ذکر قرآن و حدیث میں غیر اللہ کے لیے نہیں آیا، اس لیے اس میں تاویل کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس بنیاد پر غیر اللہ کے لیے نذر ماننے کو لغوی یا جائز قرار دینا قطعاً درست نہیں ہے۔
غیر اللہ کی قسم کا مفہوم
قرآن میں جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کی قسم کھاتے ہیں، جیسے وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُونِ، تو یہ اللہ کی طرف سے ایک اشارہ ہوتا ہے کہ وہ چیزیں قدرتی علامات ہیں اور اس کی عظمت کی نشانیاں ہیں، اور اللہ تعالیٰ اپنے مخلوقات کی قسم کھانے کا اختیار رکھتے ہیں، جبکہ انسان کے لیے یہ اختیار نہیں کہ وہ غیر اللہ کی قسم کھائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں بھی غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع کیا گیا ہے:
"جو شخص غیر اللہ کی قسم کھائے، وہ شرک کرتا ہے۔”
(سنن ابو داوود: 3251)
نذر اور قسم کی تشبیہ
نعیمی صاحب نے نذر اور قسم کے درمیان ایک مشابہت قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح غیر اللہ کی لغوی قسم جائز ہے، اسی طرح غیر اللہ کی نذر بھی لغوی معنی میں جائز ہو سکتی ہے۔ تاہم، یہ دلیل نہایت کمزور اور غلط بنیاد پر قائم ہے۔
خلاصہ
➊ غیر اللہ کی قسم کھانا شرعاً منع ہے، اور قرآن میں اللہ تعالیٰ کی قسمیں مخصوص سیاق میں آتی ہیں۔
➋ نذر کا ذکر غیر اللہ کے لیے نہ قرآن میں ہے اور نہ ہی حدیث میں، اس لیے نذر کو لغوی یا غیر شرعی طریقے سے جائز قرار دینا غلط ہے۔
➌ اس طرح کی تاویلیں اسلامی تعلیمات کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں، اور انہیں قبول کرنا دین میں انحراف کی طرف لے جا سکتا ہے۔