کرنسی کے ادھار تبادلے اور اضافے کا شرعی حکم
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

اضافے کے ساتھ کرنسی کا ادھار تبادلہ

یہ ایک عام بات ہے کہ موجودہ زمانے میں کاغذی کرنسیوں کے ساتھ لین دین ہوتا ہے کیونکہ ایک تو ان کا وزن ہلکا ہوتا ہے، انہیں منتقل کرنا آسان ہوتا ہے اور پھر انہیں گننے میں بھی سہولت ہوتی ہے۔ علماء کرام کا اس بات میں اختلاف ہے کہ انہیں کسی کے ساتھ ملایا جائے، یا انہیں سونے کے ساتھ ملایا جائے یا چاندی کے ساتھ یا پھر سامان تجارت کے ساتھ؟
میرے نزدیک راجح رائے یہ ہے کہ یہ نقدی کے ساتھ ملحق ہیں۔ یعنی سونے اور چاندی کی طرح کاغذی کرنسی بھی مستقل زر ہے، لیکن یہ مختلف انواع کی نقدی کے ساتھ ملحق ہیں، یعنی اگر یہ مختلف ہو تو ہم انہیں سونے چاندی کے اختلاف کی طرح ہی لیں گے۔
مثال کے طور پر سائل نے جو بات کی ہے، ہم کہیں گے فرانسیسی کاغذی کرنسی مراکشی، جزائری یا تیونسی کرنسی نہیں، اور پھر ہم اس اختلاف کو سونے اور چاندی کے درمیان اختلاف کی طرح لیں گے، لہٰذا اگر ایک ملک کی کرنسی کی دوسرے ملک کی کرنسی کے ساتھ بیع ہو تو پھر مجلس عقد میں ایک دوسرے کو دینا ضروری ہے، یعنی تبادلہ کرنے والے ایک دوسرے سے علاحدہ ہونے سے پہلے نقد بہ نقد اس کا تبادلہ کریں لیکن اضافے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر اس کرنسی کا ریٹ ایک ہزار ایک سو ہو اور اس نے اسے بینک میں بیچ دیا اور لوگوں نے اسے آپس میں ایک ہزار دو سو، یا چار سو یا تین ہزار میں بیچا تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس کا غذی نقدی میں ممنوع چیز صرف ربا نسیئہ (ادھار سود) ہے، لیکن ربا الفضل یعنی اضافہ اس میں ممنوع نہیں، کیونکہ یہ کاغذی زر از خود کوئی ایسی معینہ دھات میں سے نہیں جس میں برابر ہونا ضروری ہو، بلکہ اس میں تو طلب و رسد کی بنا پر کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، لہٰذا اس میں کمی بیشی میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ طلب و رسد کے ماتحت ہے لیکن ایک دوسرے کو قبضہ دینے سے پہلے جدا ہونا ممنوع ہے۔
[ابن عثيمين: نورعلي الدرب: 28/245]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے