انسان محض حیاتیاتی وجود پر قناعت نہیں کرتا
انسان محض حیاتیاتی وجود پر قناعت نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے ہونے، اپنے اردگرد کے افراد اور پوری کائنات کے بارے میں کچھ نہ کچھ رائے ضرور رکھتا ہے۔ بعض اوقات یہ رائے صرف اس کے ذہن میں ابھرتی ہے لیکن وہ اسے الفاظ میں ڈھالنے سے قاصر رہتا ہے۔ کچھ لوگ اپنی اس رائے کو علم اور دلائل کے ساتھ مضبوط بھی کرتے ہیں، اور یہی رائے بعض اوقات تعصبات کو بھی جنم دیتی ہے، کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو اس کی معنویت اور اثر پذیری ختم ہو سکتی ہے۔
علم کی راہ اور سوالات کی جستجو
اگر کوئی شخص چند کتابوں کے مطالعے اور اساتذہ کی محفلوں سے استفادہ کرے اور پھر ایسے اساتذہ سے رہنمائی پائے جو علم، عالم اور معلوم کے فرق سے آگاہ ہوں اور علوم کی فلسفیانہ بنیادوں (Epistemology) کو سمجھتے ہوں، تو وہ غیر ضروری بھٹکنے کے بجائے ایک باقاعدہ فکری راستے پر گامزن ہو سکتا ہے۔ یہ راستہ بالآخر "سوال اٹھانے” کی صلاحیت پر منتج ہوتا ہے۔ لیکن اس مقام تک پہنچنے کے لیے محنت اور مستقل مزاجی ضروری ہیں۔
جیسے ہی انسان سوالات اٹھانے کے قابل ہوتا ہے، اس کی زندگی میں فکری اضطراب کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس کا ذہن ایسے نامعلوم جہانوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے، جہاں عدم رسائی (Inaccessibility) اس کی سوچ کی بنیاد بنتی ہے۔ اس کے لیے مروجہ نظریات بے معنی ہونے لگتے ہیں اور وہ فکری تاریخ کے بڑے اذہان کے سوالات اور جوابات میں گم ہو جاتا ہے۔ اگر بات یہاں تک رہے تو یہ ایک فکری مشق سمجھی جا سکتی ہے، لیکن انسان اور دنیا کی پیچیدگی اسے مزید آگے بڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
نظریات کی بھول بھلیاں
اب سوالات کی ایک نئی دنیا اس کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ کبھی اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ محض کلچر کی پیداوار ہے اور اس سے وہی کردار متوقع ہے جو پہلے سے طے شدہ اقدار میں بہترین سمجھا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ تمام اقدار اضافی (Relative) ہیں۔ ابھی وہ ان خیالات پر غور کر ہی رہا ہوتا ہے کہ ایک اور نظریہ اس کے سامنے آتا ہے، جو کہتا ہے کہ دنیا میں کوئی "خالص علم” (Pure Knowledge) موجود ہی نہیں۔ ہر علم اور ہر متن طاقت اور سیاست سے متاثر ہوتا ہے، یعنی علم محض ایک فریب ہے۔
یہاں پہنچ کر صورتحال مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ یہ نظریہ جنم لیتا ہے کہ کوئی شخص خود سے متن تخلیق نہیں کرتا بلکہ "لکھت خود کو لکھتی ہے، لکھاری نہیں”۔ اخلاقیات اور کردار کو سماجیات (Sociology) نے اضافیت کے دائرے میں قید کر دیا، اور علمِ محض کا وجود سرے سے ہی مشکوک ٹھہرا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر علم طاقت اور سرمائے کا محتاج بن گیا۔
انسانی زندگی اور بقا کا سوال
اگر سماجی ڈھانچہ خود ایک انسانی ایجاد ہے تو پھر انسان محض ایک ذریعہ (Resource) بن کر رہ جاتا ہے، جسے سرمائے میں اضافے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہاں سے مینجمنٹ کے نظریات انسان کو محض ایک ذریعہ بنا دیتے ہیں، اور جلد ہی وہ سمجھنے لگتا ہے کہ "حصولِ لذت” ایک سراب ہے، جس کے پیچھے بھاگنا بے کار ہے۔ اس مایوسی کے عالم میں شاید وہ فیض احمد فیضؔ کا یہ شعر گنگنانے لگے:
"لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر، کیا کیجئے!”
جب ہر چیز بے معنی محسوس ہونے لگے تو انسان کی توجہ نفس کی تربیت پر مرکوز کی جاتی ہے، لیکن یہ تربیت ایک ایسی دنیا کی قیمت پر حاصل ہوتی ہے جو تجرباتی حقیقت سے ماورا ہے۔ گویا ایک ایسا چراغ جلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جسے طوفانی ہواؤں نے گھیر رکھا ہو۔ اس کے پاس وہ ذرائع اور وسائل نہیں، جو تاریخ ہمیشہ فاتحین کے ہاتھ میں رکھتی ہے۔
زندگی کی معنویت کا سوال
اب اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان کو کلچر کی پیداوار سمجھا جائے، اقدار کو اضافی قرار دیا جائے اور مینجمنٹ انسان کو محض ایک ذریعہ بنا دے، تو پھر جینے کا مقصد کیا ہے؟ زندگی کی معنویت کیا ہے؟ میرا وجود کیوں ہے؟
اور یوں انسان دوبارہ اسی سوال پر آ کھڑا ہوتا ہے، جہاں سے اس کی فکری جستجو کا آغاز ہوا تھا۔ شاید یہی وہ مقام ہے جہاں وہ کہہ اٹھتا ہے:
"چلو دوبارہ سے عشق شروع کرتے ہیں!”