کان میں دوائی کے قطرے ڈالنے سے روزہ ٹوٹنے کا حکم
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

کان میں دوا یا پانی کے قطرے ٹپکانے سے روزہ ٹوٹنے کے حوالے سے علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس مضمون میں ہم اس مسئلے پر قرآن، حدیث، اجماعِ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی روشنی میں تفصیلی دلائل پیش کریں گے۔ مزید برآں، ان لوگوں کے دلائل کا رد بھی کیا جائے گا جو کہتے ہیں کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

پہلا مؤقف: کان میں قطرے ٹپکانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے

یہ نظریہ رکھنے والے علماء کا کہنا ہے کہ روزے کے دوران جسم کے کسی بھی اندرونی حصے میں کوئی چیز داخل ہو جائے تو روزہ فاسد ہو جاتا ہے۔

1. قرآن سے دلیل

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ
اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمہارے لیے فجر کے وقت سفید دھاگہ (روشنی) سیاہ دھاگے (اندھیرے) سے نمایاں ہو جائے، پھر روزہ مکمل کرو رات تک۔
(البقرہ 187)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے سے رکنے کا حکم دیا اور "أَتِمُّوا الصِّيَامَ” (روزے کو مکمل کرو) کا جملہ عمومی ہے، یعنی ہر وہ چیز جو بدن میں کسی بھی راستے سے داخل ہو اور جسم کو فائدہ یا غذا پہنچائے، اس سے روزہ مکمل نہیں رہے گا بلکہ ٹوٹ جائے گا۔

2. حدیث سے دلائل

حدیث 1:
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"بالغ ہونے کے بعد تین چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے: کھانے پینے سے، قصداً قے کرنے سے، اور جس چیز سے انسان کو طاقت یا توانائی ملے۔”
(ابوداؤد: 2380، ترمذی: 720)

اس حدیث کی روشنی میں اگر کان میں دوا کے قطرے ڈالنے سے وہ دماغ یا حلق تک پہنچے اور جسم میں کسی قسم کی تقویت یا فائدہ پہنچائے تو یہ بھی روزہ توڑنے کے زمرے میں آئے گا۔

حدیث 2:
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"وضو کرتے وقت ناک میں پانی چڑھاؤ، مگر روزے کی حالت میں مبالغہ نہ کرو۔”
(ابوداؤد: 142، ترمذی: 788)

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ اگر کوئی چیز سر یا دماغ تک پہنچ سکتی ہے تو وہ روزے کو توڑ سکتی ہے۔ چونکہ طبی لحاظ سے کان، ناک اور حلق کا ایک دوسرے سے تعلق ہے، اس لیے اگر دوا اندر پہنچ جائے تو روزہ فاسد ہو سکتا ہے۔

حدیث 3:
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

"جو چیز اندر داخل ہو کر جسم کو تقویت پہنچائے، وہ روزہ توڑ دیتی ہے۔”
(ابن ابی شیبہ: 9266)

یہ حدیث بھی اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ جو چیز کسی بھی راستے سے جسم کے اندر پہنچے اور اثر انداز ہو، وہ روزہ توڑ دے گی۔

3. اجماع صحابہ و تابعین

صحابہ کرام اور تابعین کا موقف:
صحابہ کرام اور تابعین کے ہاں یہ اصول مسلم تھا کہ اگر کوئی چیز بدن کے اندرونی حصے میں داخل ہو کر اثر انداز ہو، تو وہ روزہ توڑ دیتی ہے۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا:
"جو چیز اندر پہنچتی ہے، چاہے کان، ناک یا کسی اور راستے سے، اگر وہ معدہ یا دماغ تک پہنچے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔”
(زاد المعاد: 2/85)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
"اگر کسی نے ناک یا کان میں دوا ڈالی اور وہ دماغ تک پہنچ گئی، تو اس کا روزہ فاسد ہو جائے گا۔”
(المغنی لابن قدامہ: 3/125)

دوسرا مؤقف: کان میں قطرے ٹپکانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا

کچھ علماء کے مطابق کان میں دوا ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ:

◈ کان کھانے پینے کا راستہ نہیں ہے۔
◈ قرآن و حدیث میں کوئی واضح نص موجود نہیں جو کان کے ذریعے داخل ہونے والی چیز کو روزہ توڑنے کا سبب قرار دے۔
◈ امام شافعی سمیت بعض فقہاء کے مطابق کان کا معدہ سے کوئی راستہ ثابت نہیں۔

اس مؤقف کا رد

جدید میڈیکل تحقیق:
میڈیکل سائنس کے مطابق کان، ناک اور حلق آپس میں جُڑے ہوئے ہیں، اور کان میں داخل ہونے والی دوائی حلق اور معدہ تک پہنچ سکتی ہے۔ اگر دوائی اندر پہنچے اور جسم کو کسی قسم کا فائدہ دے تو یہ روزہ فاسد کر سکتی ہے۔

نبی اکرم ﷺ کی حدیث:
نبی ﷺ کا وضو کے دوران ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ نہ کرنے کا حکم اسی بات کو واضح کرتا ہے کہ روزے کی حالت میں وہ چیزیں ممنوع ہیں جو کسی نہ کسی راستے سے اندر پہنچ سکتی ہیں۔

فقہائے احناف، حنابلہ اور مالکیہ کا موقف:
یہ فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی چیز کسی بھی راستے سے جسم کے اندرونی حصے میں داخل ہو کر اثر انداز ہو، تو وہ روزہ توڑ دیتی ہے۔ چونکہ کان، ناک اور حلق کا آپس میں تعلق ہے، اس لیے دوا اگر اندر پہنچے تو روزہ متاثر ہو گا۔

نتیجہ

زیادہ تر دلائل اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ کان میں دوائی کے قطرے ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، خاص طور پر اگر وہ دماغ یا حلق تک پہنچے۔ جو علماء اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں، ان کے دلائل کمزور ہیں، کیونکہ جدید طبی تحقیق اور فقہائے متقدمین کی تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ کان کے ذریعے دوا جسم کے اندر پہنچ سکتی ہے۔

لہذا، احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ روزے کی حالت میں کان میں دوا ڈالنے سے اجتناب کیا جائے، اور اگر کسی اشد ضرورت کے تحت ایسا کرنا ناگزیر ہو تو بعد میں قضا روزہ رکھ لیا جائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1