سوال:
اگر ایک شخص اپنے بھائی کو کاروبار کے لیے پانچ لاکھ روپے دیتا ہے اور طے یہ ہوتا ہے کہ ہر مہینے اسے پچاس ہزار روپے نفع ملے گا، چاہے نفع ہو یا نقصان، تو کیا یہ معاہدہ جائز ہے؟ نیز اگر نقصان ہو جائے تو اس معاہدے سے رجوع کا طریقہ کیا ہوگا؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
کاروباری معاہدے کی وضاحت ضروری ہے
پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ کیا یہ مضاربہ ہے یا مشارکت۔
◄ مضاربہ: ایک کا سرمایہ اور دوسرے کی محنت ہوتی ہے۔
◄ مشارکت: دونوں کا سرمایہ اور دونوں کی محنت ہوتی ہے۔
دونوں معاہدے شرعی طور پر جائز ہیں، لیکن ان کے شرائط کا درست ہونا ضروری ہے۔
نفع کا تعین فیصد کی بنیاد پر ہونا چاہیے
مضاربہ یا مشارکت میں نفع فیصد (پرسنٹیج) کے حساب سے طے کیا جانا چاہیے، جیسے 40% یا 50% نفع۔
فکس رقم (جیسے ہر مہینے 50 ہزار) طے کرنا شرعی طور پر ناجائز ہے، کیونکہ یہ سود کے زمرے میں آتا ہے۔
نقصان کی صورت میں شرعی حکم
اگر نقصان ہو تو اصول یہ ہے کہ:
◄ مضاربہ میں: نقصان سرمایہ دار (سرمایہ دینے والے) کا ہوتا ہے، اور محنت کرنے والے کو اپنی محنت کا معاوضہ نہیں ملتا۔
◄ مشارکت میں: نقصان دونوں فریقوں پر ان کے سرمائے کے تناسب سے تقسیم ہوتا ہے۔
معاہدے سے رجوع کا طریقہ
◄ باہمی رضامندی سے معاہدے کو ختم کرنا ضروری ہے۔
◄ تحریری معاہدے کو ختم کرنے کے لیے دو گواہوں کی موجودگی میں تحریر کو باہمی رضامندی سے منسوخ کریں۔
◄ اگر کسی مسئلے پر الجھن ہو، تو کسی عالم دین یا ماہر شریعت سے مشورہ لے کر نیا معاہدہ طے کیا جا سکتا ہے۔
خلاصہ:
◄ فکس رقم پر نفع (جیسے ہر مہینے 50 ہزار) طے کرنا شرعی طور پر ناجائز ہے۔
◄ نفع کو فیصد کی بنیاد پر طے کرنا ضروری ہے، تاکہ نفع نقصان کے مطابق کم یا زیادہ ہو سکے۔
◄ معاہدے سے رجوع باہمی رضامندی اور دو گواہوں کی موجودگی میں تحریر ختم کر کے کیا جا سکتا ہے۔