قرآن اور کائنات کے پھیلاؤ کا نظریہ
ابتدائی طور پر، سائنسدان اس بات کے قائل نہیں تھے کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ تاہم، قرآن نے اس حقیقت کی چھٹی صدی عیسوی میں ہی وضاحت کردی تھی:
وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ۔
’’اور آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ہم اِسے مزید وسعت دے رہے ہیں‘‘ (سورت الذاریات، آیت 38)
پہلا تصور: خلا اور وقت کا مطلق ہونا
ابتدائی سائنس میں یہ خیال عام تھا کہ خلا اور وقت دونوں مطلق ہیں، اور کائنات پھیل نہیں رہی۔ یہ تصور نیوٹن کے قوانین پر مبنی تھا، اور اس سے ہٹ کر سوچنا بظاہر مضحکہ خیز سمجھا جاتا تھا۔ جب آئن سٹائن نے اپنی عمومی نظریہ اضافیت تیار کی تو اس میں کائنات کے پھیلنے کا اشارہ تھا، لیکن اسے اس کے مساوات میں درکار توانائی کہیں سے میسر نہیں آئی، جس کی وجہ سے اس نے ایک "کانسٹینٹ” شامل کیا۔ بعد میں، اس نے اسے اپنی زندگی کی بڑی غلطی یعنی "بِگ بلنڈر” کہا۔
ہبل کی دریافت اور کائنات کا پھیلاؤ
کائنات کے پھیلاؤ کا نظریہ کسی ریاضی کی بنیاد پر نہیں بلکہ مشاہدے سے سامنے آیا۔ 1923 میں ہبل نے اپنی دوربین سے یہ مشاہدہ کیا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ جب اس نے یہ منظر سائنسدانوں کے سامنے پیش کیا تو سب نے یقین کرلیا، اور آئن سٹائن نے اپنے "بِگ بلنڈر” کا اعتراف کیا۔
کائنات کی پھیلنے کی رفتار اور توانائی کا مسئلہ
پہلے یہ مانا گیا کہ کائنات کی پھیلنے کی رفتار وقت کے ساتھ ساتھ سست ہو رہی ہے۔ یہ نظریہ توانائی کے مخصوص مقدار پر مبنی تھا کہ جس رفتار سے کہکشائیں ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں، وہ کم ہو رہی ہوگی۔ اس طرح، یہ سوچا گیا کہ کائنات ایک غبارے کی طرح ہے جو ایک حد تک پھیلنے کے بعد یا تو پھٹ جائے گا یا سکڑ کر واپس ایک نقطے کی طرف آجائے گا۔
1998 کی نئی دریافت: تیز رفتار پھیلاؤ
1998 میں، ایک حیران کن مشاہدہ سامنے آیا کہ کائنات کی پھیلنے کی رفتار دراصل کم نہیں ہو رہی بلکہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس انکشاف نے فزکس کی دنیا میں ہلچل مچا دی۔ اتنی توانائی کہاں سے آ رہی ہے جو کائنات کے مادے کو مسلسل پھیلا رہی ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے "ڈارک انرجی” کا نظریہ سامنے آیا۔
ڈارک انرجی اور آئن سٹائن کی کانسٹینٹ کی اہمیت
سائنسدانوں نے کہا کہ آئن سٹائن بے وجہ اپنے کانسٹینٹ کو "بِگ بلنڈر” سمجھتا رہا۔ اگر اس نے یہ کانسٹینٹ شامل نہ کیا ہوتا، تو شاید ہم ڈارک انرجی کی مقدار کا اندازہ نہ لگا پاتے۔
کائنات کا مستقبل اور ڈارک انرجی کی تلاش
آج یہ تسلیم کیا جاچکا ہے کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اور ڈارک انرجی اس کو تیزی سے پھیلا رہی ہے۔ اگر یہ پھیلاؤ اسی طرح جاری رہا تو ایک وقت آئے گا کہ تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے اتنی دور ہوجائیں گی کہ نظر نہیں آئیں گی، اور کائنات ایک خاموش، تاریک رات میں تبدیل ہو جائے گی۔
ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر کی تلاش
ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر کا وجود ابھی تک صرف نظریاتی ہے۔ ان کی تلاش کے لیے مختلف تجربات کیے جارہے ہیں، جن میں افریقہ کی ایک متروک سونے کی کان میں ستر کلومیٹر گہرائی میں تجرباتی پلیٹیں نصب کی گئی ہیں۔ اس گہرائی کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ وہاں دیگر شعاعوں اور مادہ سے کم سے کم مداخلت ہو، اور شاید کسی دن ان پلیٹوں پر ڈارک میٹر یا ڈارک انرجی کا کوئی ذَرّہ ٹکرا جائے جس سے اس کا وجود ثابت ہوجائے۔