ایک ملحد کی طرف سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کائنات کو بنانے سے پہلے اللہ تعالی کیا کر رہا تھا۔
سوال میں پائی جانے والی غلطیاں
فرضیہ 1: اللہ کے تمام افعال کا علم ہونا ضروری ہے
یہ سوال اس غلط مفروضے پر مبنی ہے کہ انسان کو اللہ کے ہر فعل کا علم ہونا چاہئے۔ حالانکہ مسلمانوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ اللہ کے ہر کام سے واقف ہیں۔
سوال کرنے والے نے خاص طور پر "کائنات بنانے سے پہلے” کی بات کی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہمیں کائنات بنانے کے بعد اللہ کے کاموں کا علم ہے، جبکہ حقیقت میں ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اللہ کائنات بنانے کے بعد کیا کرتا ہے۔
فرضیہ 2: اللہ مخلوق کی طرح کچھ کرنے پر مجبور ہے
سوال یہ تصور پیش کرتا ہے کہ اللہ کو مسلسل "کچھ کرنا” ضروری ہے، جیسے انسان اپنی زندگی میں کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی کسی مجبوری سے پاک ہیں۔ یہ سوال مخلوق کی کمزوریوں کو اللہ کی ذات پر مسلط کرنے کی کوشش ہے، جو کہ گمراہ کن ہے۔
فرضیہ 3: اللہ وقت و خلا میں مقید ہیں
سوال یہ فرض کرتا ہے کہ اللہ زمان و مکان کی حدود میں مقید ہیں، جبکہ زمان و مکان خود اللہ کی تخلیق ہیں۔
کائنات کے پہلے وقت اور خلا کی حقیقت
زمان و مکان کا وجود کائنات کے ساتھ ہے
سائنسی طور پر یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ بگ بینگ کے ساتھ ہی وقت اور خلا کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے زمان و مکان کا کوئی وجود نہیں تھا۔
انسانی شعور کی محدودیت
انسانی دماغ خلا اور وقت کے بغیر کسی شے یا عمل کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ چونکہ کائنات سے پہلے وقت موجود نہیں تھا، اس لیے انسان اس بات کا ادراک نہیں کر سکتا کہ اللہ کا اس وقت کیا عمل تھا۔
سوال کا سادہ جواب
- ہمیں معلوم نہیں۔
- ہمیں معلوم ہونے کی ضرورت بھی نہیں۔
- اللہ نے ہمیں اس بات کی اطلاع دینا ضروری نہیں سمجھا۔
- اللہ نے ہمیں صرف وہی علم دیا جو ہماری ہدایت کے لیے ضروری ہے۔
- اس سوال کا جواب ہماری نجات کے لیے اہم نہیں ہے۔
- یہ سوال انسانی شعور کی حد سے باہر ہے۔
اعتراض: "اللہ کا کائنات میں تصرف کرنا اس کے زمان و مکان میں مقید ہونے کی دلیل ہے”
زمان و مکان اللہ کی تخلیق ہیں
اعتراض یہ فرض کرتا ہے کہ اللہ کو کائنات میں تصرف کرنے کے لیے زمان و مکان میں شریک ہونا ضروری ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ زمان و مکان بھی اللہ کی تخلیق ہیں۔
جیسے انسان اپنی تخلیقات میں شامل ہوئے بغیر انہیں کنٹرول کرتا ہے، ویسے ہی اللہ اپنے مخلوقات میں شامل ہوئے بغیر ان کا نظام چلاتا ہے۔
تصرف کی کیفیت کا ادراک انسانی عقل سے باہر ہے
مذہب یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ اللہ کے تصرف کی کیفیت کو انسان سمجھ سکتا ہے، کیونکہ انسان خود زمان و مکان میں مقید ہے اور اللہ ان تمام حدود سے آزاد ہیں۔
اللہ کے بارے میں درست عقیدہ
اللہ وہ نہیں جو انسان تخلیق کرے
اللہ کے بارے میں خیالات کو انسانی عقل، خواہش یا سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر گھڑنا درست نہیں۔ اللہ کی ذات کو وہی سمجھا جا سکتا ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا۔
مشرکین عرب کے خود ساختہ تصورات کو قرآن نے رد کیا، اسی طرح آج کے دور میں سائنس یا فلسفے کی بنیاد پر گھڑے گئے خدا کے خیالات بھی درست نہیں۔
فلسفہ یا سائنس اگر کسی "کلاک میکر گاڈ” یا "علت اولیٰ” کو خدا کا نام دے، تو یہ حقیقی خدا نہیں بلکہ انسان کا تخلیق کردہ خدا ہے۔ حقیقی خدا وہ ہے جس کا ذکر اللہ کے نبی ﷺ نے کیا۔