چہرے پر مارنے کی ممانعت اور اس کے احکام
ماخوذ: شرح کتاب الجامع من بلوغ المرام از ابن حجر العسقلانی، ترجمہ: حافظ عبد السلام بن محمد بھٹوی

وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم:‏‏‏‏إذا قاتل احدكم فليجتنب الوجه ‏‏‏‏ [متفق عليه]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب تم میں سے کوئی شخص لڑے تو چہرے سے بچے۔ “ [متفق عليه ]
تخریج : [بخاري 2559] ، [مسلم/البر والصلة 112] ، دیکھئے تحفۃ الاشراف [204/10]
فوائد :
چہرے پر مارنے کی ممانعت :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے چہرے پر کوئی بھی چیز مارنا منع ہے حتیٰ کہ اپنے غلام، خادم یا شاگرد کو ادب سکھانے کے لئے یا سزا دیتے وقت بھی منہ پر کوئی چیز مارنا حرام ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت میں یہ لفظ آئے ہیں : اذا ضرب احدكم خادمه فليجتنب الوجه [صحيح الادب المفرد حديث نمبر130]
”جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مارے تو چہرے سے بچے۔ “ آپس میں لڑائی ہو جائے غصہ اور جذبات کتنے ہی مشتعل کیوں نہ ہوں مسلمان کے منہ پر ہتھیار چھوڑ کر تھپٹر بھی نہ مارے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں :
اذا قاتل احدكم اخاه فلا يلطمن الوجه [مسلم/البروالصلة 116]
” جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے لڑے تو منہ پر تھپٹر نہ مارے۔ “
سزا دیتے وقت بھی منہ پر نہ مارے :
ایک روایت میں قَاتَلَ کی جگہ اِذَا ضَرَبَ اَحَدُكُمْ کے لفظ ہیں۔ [مسلم – البر والصلة 112]
یعنی صرف لڑائی ہی نہیں کسی وجہ سے بھی مارے تو چہرے پر مارنے سے بچے۔
باکسنگ :
باکسنگ میں چونکہ ایک دوسرے کے چہرے کو نشانہ بنایا جاتا ہے اس لئے اس حدیث کی رو سے یہ وحشیانہ کھیل حرام ہے۔
چہرے پر مارنا کیوں منع ہے ؟ :
چہرے پر مارنے کی حرمت کی ایک وجہ تو صاف ظاہر ہے کہ یہ انسانی حسن و جمال کا مظہر ہے اور آدمی کے اکثر حواس مثلاً دیکھنا، سننا، چکھنا اور سونگھنا چہرے میں ہی پائے جاتے ہیں۔ چہرے پر مارنے کی صورت میں ان تمام حواس کا یا ان میں سے کسی ایک کا ختم ہو جانا یا خراب ہو جانا عین ممکن ہے اور شکل بگڑنے کا بھی اندیشہ ہے۔ کسی مسلم بھائی کے ساتھ اتنی زیادتی کی صورت بھی جائز قرار نہیں دی جا سکتی۔
دوسری وجہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ :
اذا قاتل احدكم اخاه فليجتنب الوجه فان الله خلق آدم على صورته [مسلم البر والصلة 115]
”جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے لڑے تو چہرے سے بچے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔“
اس حدیث میں مارنے سے ممانعت کی وجہ سے انسانی چہرے کی تکریم قرار دی گئی ہے۔ بعض لوگ اس حدیث کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اس (آدم) کی صورت پر پیدا فرمایا، مگر ابن ابی عاصم نے ” کتاب السنہ“ میں ابويونس عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ کے طریق سے یہی روایت ان الفاظ میں بیان کی ہے : من قاتل فليجتنب الوجه فان صورة وجه الانسان على صورة وجه الرحمن ”جو شخص لڑے وہ چہرے سے بچے کیونکہ انسان کے چہرے کی صورت رحمان کے چہرے کی صورت پر ہے۔“ (فتح الباری میں اس مفہوم کی اور روایات بھی لکھی ہیں دیکھے : جلد 5 حدیث 2559)
اسحاق بن راہویہ اور احمد بن حنبل رحمها الله نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا جس میں ہے کہ اللہ نے آدم کو رحمان کی صورت پر پیدا فرمایا۔ [فتح الباري، حواله مذكوره ]
البتہ یہ بات خاص طور پر مدنظر رہنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ :
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ [الشوريٰ 11]
”اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سمیع و بصیر ہے۔“
اسی طرح اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا مگر اس سے مراد کیا ہے ؟ اس کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اتنی بات یقینی ہے کہ اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں۔ مخلوق کو خالق کے ساتھ تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔
کافر کو چہرے پر مارنے کا حکم :
بعض علماء نے لکھا ہے کہ جہاد میں بھی چہرے پر مارنا جائز نہیں، مگر یہ بات درست نہیں۔ اصل یہ ہے کہ کفار اپنے کفر کی وجہ سے شرف انسانی سے محروم ہیں ان کی کوئی تکریم نہیں أُولَـٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ [7-الأعراف:179]
”یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر گمراه۔ “
قیامت کے دن اس حقیقت کا اظہار اس طرح ہو گا کہ ابراہیم علیہ السلام کے والد آزر کا چہرہ انسان کی بجائے بجو کا کر دیا جائے گا۔ [بخاري۔ كتاب احاديث الانبياء /8 ]
عزت و تکریم صرف مومن کے لئے ہے۔ وَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ [المنافقون : 8]
” عزت صرف اللہ کے لئے، اس کے رسول کے لئے اور مومنوں کے لئے ہے۔“ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے متعلق فرمایا۔ فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ [8-الأنفال:12]
”ان کی گردنوں کے اوپر مارو اور ان کے ہر پورے پر مارو۔ “
اب ظاہر ہے گر دنوں سے اوپر کھوپڑی اور چہرہ ہی ہے۔ اور اتنی نفاست سے مارنا کہ صرف کھوپڑی پر لگے اور چہرے پر نہ لگے۔ ممکن ہی نہیں اور فرمایا کہ فرشتے کفار کو فوت کرتے وقت يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ [محمد : 27] ”ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے ہیں۔ “
سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ حنین میں جب کفار نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر سے اتر پڑے پھر آپ نے زمین سے مٹی کی ایک مٹھی پکڑی اور اسے ان کے چہروں کی طرف پھینک کر فرمایا : شَاهَتِ الْوُجُوْهُ ” چہرے بگڑ جائیں۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کی آنکھوں کو مٹی سے بھر دیا، وہ پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے اور اللہ نے انہیں شکست دے دی۔ [مسلم۔ كتاب الجهاد والسير /81]
دیکھئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چہروں کو نشانہ بنایا اور ان کے چہروں کے بگڑنے کے لئے خاص بددعا کی۔
بدلے کی صورت میں چہرے پر مارنا جائز ہے :
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ [2-البقرة:194]
” جو تم پر زیادتی کرے تم اس پر اس کی مثل زیادتی کرو جو اس نے کی۔ “
اور فرمایا :
وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ [5-المائدة:45]
” ہم نے ان پر اس (توراة) میں لکھ دیا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا بدلہ ہے۔“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے