قصہ نمبر 41 :
شب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جھلک
——————
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں ایک شب اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رہا، رات کو میں تو بستر کے چوڑان میں لیٹا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورام المومنین رضی اللہ عنہا کے بستر کے طول میں لیٹ رہے،(شروع رات میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور کم و بیش آدھی رات کو بیدار ہوئے، چہرہ ملتے ہوئے اٹھے اور سورہ آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت فرمائی اس کے بعد اٹھے، ایک مشک لٹک رہی تھی، اس سے خوب اچھی طرح وضو کیا اور نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے، میں نے بھی اٹھ کر وہی افعال کئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر جا کر کھڑا ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا کان پکڑ کر ملنا شروع کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں (کل بارہ رکعت نماز پڑھی ) اخیر میں وتر پڑھ کر لیٹ رہے، جب موذن حاضر ہوا تو خفیف سی دو رکعتیں پڑھ کر مکان سے برآمد ہوئے اور فجر کی نماز پڑھی۔ [بخاري شريف : 117، 138، 181، 665، 667، 693، 695، 821، 947 وغيره ]
فائده:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دوہرا رشتہ رکھتے تھے چنانچہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تایا زاد بھائی بھی تھے اور ان کی خالہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ بھی تھیں، لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ پر آفرین ہے کہ انہوں نے اپنے نسب پرگھمنڈ کرنے کی بجائے خوب محنت اور توجہ سے حصول علم کے لئے اپنے آپ کو وقف کئے رکھا اور پروردگار عالم نے انہیں اتنا بڑا صلہ عطا فرمایا کہ لسان شریعت کے ذریعے ”ترجمان القرآن“ کا بہار آفریں خطاب مرحمت فرمایا، امت نے بھی قدردانی کا حق ادا کرتے ہوئے ”حبر الامۃ‘‘ کا ہدیہ پیش کیا، کیا ہمارے صاحبزادگان کچھ سوچنے کے لئے تیار ہوئے ؟
قصہ نمبر 42 :
دعاء مصطقی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبولیت
——————
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میری خالہ مجھ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئیں اور جا کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا بھانجا بیمار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور برکت کی دعا دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی پیا، بعد ازیں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت کبوتری کے انڈے کی طرح جگمگارہی تھی۔ [بخاري شريف :187، 3347، 3347، 5346، 5991 ]
فائدہ:
اس حدیث کی وضاحت بخاری شریف ہی کی ایک دوسری حدیث میں وارد ہوئی ہے اور وہ یہ کہ جعید بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کو 95 سال کی عمر میں بھی قوی الاعضا اور صحیح المزاج دیکھا اور اس کی وجہ خود انہوں نے ایک مرتبہ یہ بیان فرمائی کہ میری آنکھیں اور کان جس قدر کام دے رہے ہیں یہ سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا صدقہ ہے اور پھر مذکورہ بالا واقعہ بیان فرمایا۔
قصہ نمبر 43 :
بیماروں کا غم خوار صلی اللہ علیہ وسلم
——————
حضرت جابر بن عبد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک بار میں بیدار ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیدل میری عیادت کو تشریف لائے، مجھے بےہوش پاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور وضو کے پانی کا چھینٹا مجھ پر دیا، مجھے فوراً ہوش آ گیا، دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے مال کا کیا کروں ؟ میں اپنے مال کے متعلق کیا فیصلہ کروں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ میراث والی آیت اتری۔ [بخاري شريف :191، 430، 5327، 534، 5352، 6344، 6362، 6879 ]
فائدہ :
بیمار کی عیادت اور تیمارداری ہر مسلمان کا اخلاقی فریضہ اور دوسرے مسلمان کا حق بنتا ہے جس سے غفلت معاشرے میں بڑھتا ہوا ایک ناسور ہے حالانکہ حدیث کے مطابق صبح کو مریض کی عیادت کرنے والے کے لئے شام تک اور شام کو عیادت کرنے والے کے لئے صبح تک ستر ہزار فرشتے دعا مغفرت میں محور رہتے ہیں اور یقیناً معصوم فرشتوں کی دعا دراجابت سے لوٹ کرنہیں آئے گی۔
قصہ نمبر 44 :
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری خطبه
——————
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیدار ہوئے اور تکلیف کی شدت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے میرے گھر میں ایام مرض بسر کرنے کی اجازت مانگی، سب بیویوں نے اجازت دے دی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمیوں کے سہارے اس میں سے ایک حضرت عباس تھے تشریف لائے۔ حضرت عبد الله رضی اللہ عنہ کہتے ہیں دوسرے آدمی حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض شدت پکڑ گیا تو فرمایا سات مشکیں میرے اوپر ڈالو تاکہ (کچھ افاقہ ہو تو ) میں لوگوں کو کچھ وصیت کرسکوں، ہم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ٹب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بٹھا کر مشکوں سے پانی ڈالنا شروع کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے اشارہ سے فرمایا بس! اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے، لوگوں کو نماز پڑھائی اور خطبہ ارشاد فرمایا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دوران مرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کمبل کو منہ پر ڈال لیتے تھے لیکن گھبرا کر پھر اتار ڈالتے تھے، اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہودیوں اور عیسائیوں پر خدا کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنالیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے مقصود امت کو یہودیوں اور عیسائیوں کے فعل سے ڈرانا اور خوف دلا نا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت کے تعلق) جو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بار بار(تردیدی الفاظ میں ) عرض کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ لوگ کسی شخص کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ پر کھڑا ہونا پسند نہیں کریں گے اور مجھے یقین تھا کہ جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ پر کھڑا ہوگا، لوگ اس کے دشمن بن جائیں گے اس لئے میں نے چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس امر (امامت) کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے لوٹا کر کسی اور کے سپرد کردیں۔ [بخاري شريف : 195، 633، 634، 647، 650، 651، 655، 680، 681 وغيره]
فائدہ :
اس حدیث کی وضاحت کے لئے بخاری شریف ہی میں یہ روایت متعدد مرتبہ وارد ہوئی ہے کہ اپنے مرض الوفات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے یار غار اور رفیق جانثار کو مصلی امامت پر کھڑا کرنے کا حکم صادر فرمایا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول الله ! والد صاحب بڑے رقیق القلب ہیں مصلی امامت پر آپ کی نیابت کے لئے کھڑے ہوں گے تو اپنی آنکھوں پر قابو نہ رکھ سکیں گے اور آنسوؤں کی موسلادھار بارش شروع ہو جائے گی اور لوگوں کو کچھ سجھ نہ آئے گا لیکن سرکار کی زبان پر صرف اپنے جانثار کا نام تھا، بار بار کی تکرار دیکھ کرفرمایاکہ تم تو زنان مصر کی طرح ہو، اندر سے چاہتی کچھ اور ہو، زبان پر کچھ اور ہے، جاؤ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لئے کہہ دو، سمجھانا یہ مقصود تھا کہ جس طرح میرا جانثار امامت صغری کی مکمل اہلبیت اپنے اندر رکھتا ہے، امامت کبری اور خلافت کا اصل حقدار بھی یہی ہے۔
قصہ نمبر 45 :
غزوہ خیبر کا ایک رخ یہ بھی ہے
——————
حضرت سوید بن نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب جنگ خیبر کے سال گیا، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام صہبا میں ”جو خیبر کے قریب ہے“ پہنچے تو آپ نے وہاں عصر کی نماز پڑھی، اس کے بعد آپ نے سفر کا راشن منگوایا لیکن سوائے ستو کے اور کچھ پیش نہ کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستو بھگونے کا حکم دیا اور خود بھی کھائے اور ہم نے بھی کھائے، پھر آپ نماز مغرب کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی کی اور ہم نے بھی کلی کی اور بغیر وضو کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی۔ [بخاري شريف:206، 212، 2819، 3941، 3959، 5059، 5075، 5139 ]
فائدہ:
اس واقعے کے ضمن میں ایک بات تو یہ قابل ذکر ہے کہ بعض لوگ کسی بھی پکی ہوئی چیز کو کھانے کے بعد دوبارہ نیا وضو کرنا ضروری سمجھتے ہیں،یہ صحیح نہیں ہے البتہ کلی کر لینا مسنون ہے اور جب تک وضو ٹوٹ نہ جائے صرف اس بنا پر وضو نہیں کرنا چاہئے۔
دوسری بات آپ نے واقعے کے ظاہر سے ہی سمجھ لی ہوگی کہ خدا کا حبیب، خدا کا کلمہ بلند کرنے کے لئے، خدا کی راہ میں اپنے مٹھی بھر جاشاروں کے ساتھ اپنی جان ہتھیلی پر لئے پھر رہا ہے اور کھانے کے وقت دسترخوان پر سوائے ”ستو “ کے اور کچھ نہیں ملتا، سفر اور حضر کی یہ کیفیت تا زندگی وفاداری نبھاتی رہی، یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیواؤں کے لئے درس عبرت ہے بشرطیکہ دیدہ بینا بھی ہو۔
قصہ نمبر 46 :
پیشاب اور چغل خوری
——————
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ کے کسی باغ کی طرف سے گزر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں دو آدمیوں کی آوازیں سنیں جن پر قبروں میں عذاب ہورہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان پر عذاب تو ہورہا ہے لیکن کسی بڑی بات کی وجہ سے عذاب نہیں ہورہا، کچھ دیر توقف کے بعد فرمایا کیوں نہیں، ایک تو اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خوری کرتا پھرتا تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک ٹہنی منگائی اور اس کو چیر کر دوٹکڑے کر کے دونوں قبروں پر ایک ایک کر رکھ دیا، ایک شخص نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام کیوں کیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ممکن ہے جب تک یہ خشک نہ ہوں ان کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو جائے۔ [بخاري شريف : 213، 215، 1295، 1312 5705، 5608]
فائدہ :
عام طور پر ہمارے معاشرے میں مرد و عورت یکساں طور پران بیماریوں میں مبتلا ہیں، پیشاب کی چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام تو بالکل ہی نہیں کیا جاتا، کھڑے کھڑے یا جلدی میں پیشاب کیا، نہ صحیح طریقے سے استنجاء اور نہ اطمینان سے قضا حاجت، دیکھنے میں یہ کتنی معمولی بات ہے لیکن اس پر گرفت کتنی سخت ہے اس لئے حدیث میں پیشاب کی چھینٹوں سے بچنے کی بہت تاکید آئی ہے اسی طرح چغل خوری کی لعنت بھی ہم نے خود ہی پال رکھی ہے، اے کاش ان واقعات سے ہم کوئی سبق حاصل کر پاتے۔
قصہ نمبر 47 :
بڑے کی بڑائی
——————
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے خواب میں دکھائی دیا کہ میں مسواک کر رہا ہوں، اتنے میں دو آدمی آئے جن میں سے ایک بڑا تھا اور دوسرا چھوٹا، میں نے مسواک (کرکے ) چھوٹے کو دے دی مگر مجھ سے کہا گیا کہ بڑے کو دیتے، چنانچہ میں نے بڑے کو دے دی۔ [بخاري شريف : 243 ]
فائدہ :
چونکہ انبیاء کرام علیہ السلام کے خواب بھی” وحی الہی “ ہوتے ہیں اس لئے خواب میں کسی حکم کا آنا اسی طرح واجب تعمیل ہوتا ہے جیسے بیداری میں، نیز اس واقعے سے جہاں مسواک کی اہمیت ثابت ہوتی ہے وہیں بڑے کی بڑائی پر بھی روشنی پڑتی ہے لیکن افسوں صد افسوس ! ہمارے معاشرے نے چھوٹوں سے شفقت چھین لی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بڑوں کی بڑائی نہ رہی۔
قصہ نمبر 48 :
غسل کا پانی
——————
حضرت ابوجعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز میں اور میرے والد، حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور چند آدمی وہاں اور بھی موجود تھے، حاضرین نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے غسل کے (پانی کی مقدار ) دریافت کی، تو آپ نے فرمایا تمہارے لئے ایک صاع پانی کافی ہے، ایک شخص بولا میرے لئے تو کافی نہیں ہوسکتا حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایک صاع تو اس شخص کے لئے کافی ہو جاتا تھا جس کے بال تم سے زائد تھے اور اس کو تم پرفضیلت بھی تھی (یعنی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ) ابوجعفر علیہ السلام کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ہم کو ایک کپڑا پہن کر نماز پڑھائی۔ [ بخاري شريف : 249، 252، 253 ]
فائدہ:
”صاع‘ ایک پیمانے کا نام ہے جسے ہم آسانی کے لئے زیادہ سے زیادہ ”چار کلو“ کا نام دے سکتے ہیں کہ اتنی مقدار پانی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم غسل فرمالیا کرتے تھے لیکن ہم تو کھلے نلکے کے نیچے بیٹھ کر پانی کی ایک وافر مقدار کو جب تک بہانہ لیں میں ہمارا نہ غسل پورا ہوتا ہے اور نہ ہمیں سکون محسوس ہوتا ہے اگر اتنی کم مقدار میں آپ نہیں نہا سکتے تو کم ازکم اسراف سے تو بچ سکتے ہیں، کوشش کر کے دیکھئے۔
قصہ نمبر 49 :
حضرت موسی علیہ السلام اور ایک پتھر
——————
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل اس طرح بر ہنہ ہو کر نہایا کرتے تھے کہ ایک دوسرے کو دیکھا جاتا تھا، مگر حضرت موسی علیہ السلام علیحدہ غسل کیا کرتے تھے چنانچہ بنی اسرائیل با ہم کہا کرتے تھے کہ ہمارے ساتھ نہ نہانے کی وجہ یہ ہے کہ موسیٰ کو غدود پھول جانے کا مرض ہے۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام غسل کرنے گئے اور اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ دیئے، وہ پھر کپڑوں کو لے کر بھاگنے لگا اور موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑے کہ اے پتھر میرے کپڑے، اے پتھر میرے کپڑے یہاں تک کہ بنی اسرائیل نے خوب دیکھ لیا اور قائل ہو گئے کہ موسیٰ علیہ السلام میں واقعی کوئی عیب نہیں ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پتھر سے کپڑے لے لئے اور اس کو مارنا شروع کر دیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قسم خدا کی اس پتھر پر ضرب کے سات نشان ہو گئے تھے۔ [بخاري شريف : 274، 3223، 4521]
فائدہ :
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ بظاہر اس موقع پر وہ پتھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے زحمت کا سبب بنا لیکن حکم خداوندی کے مطابق یہی پتھر ان کے لئے اس موقع پر رحمت کا سبب بھی بنا جب بنی اسرائیل کو پانی کی ضرورت پیش آئی اور اس پتھر سے بنی اسرائیل کے لئے بارہ چشمے جاری کئے گئے، قرآن کریم کے پہلے پارے میں اس کا کسی قدر بیان موجو ہے۔
قصہ نمبر 50 :
عنایت خدا کی
——————
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مرتبہ حضرت ایوب رضی اللہ عنہ برہنہ ہو کر نہا رہے تھے کہ سونے کی ٹڈیاں گرنی شروع ہوئیں،آپ نے ان کو کپڑے میں بھرنا شروع کر دیا، فورا ہی خدا تعالی کی طرف سے آواز آئی کہ اے ایوب ! کیا ہم نے تم کو (مال دار کر کے) ان سے بے نیاز نہیں کر دیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا قسم ہے تیری عزت کی کیوں نہیں (یعنی کر دیا ہے ) مگر میں تیری عنایت و برکت سے تو بے پرواہ نہیں ہوں۔ [بخاري شريف : 270، 3211، 7055 ]
فائدہ:
حضرت ایوب علیہ السلام کے متعلق انتہائی بے سروپا قصے اسرائیلیات کے حوالے سے ہماری تفاسیر میں بھی در آئے ہیں حالانکہ یہ قانون ہے کہ الله تعالی نے اپنے کسی نبی کو کسی ایسے مرض میں مبتلا ہیں کیا جس کی وجہ سے لوگ ان سے نفرت کرنے لگیں اس لئے جسم میں کیڑے پڑ جانا وغیرہ سب واہیات ہیں۔
حضرت ایوب علیہ السلام کا جب امتحان مکمل ہوا، ایڑی کی رگڑ سے ایک ٹھنڈا، میٹھا پانی کا چشمہ جاری کر دیا گیا، اسے پی کر پیاس بجھائی اور غسل کر کے بیماری سے چھٹکارا حاصل کیا، ابھی غسل کر ہی رہے تھے کہ یہ واقعہ پیش آیا۔
اس واقعے سے معلوم ہوا کہ جب ان کے دینے میں کمی نہ ہو تو ہمارے لینے میں بھی کی نہیں ہونی چاہئے لیکن حیرت کی بات ہے کہ ”مسلمان “اتنے مستغنی ہو چکے ہیں کہ ہاتھ اٹھا کر مانگنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ شاید ہمیں اس چیز کا احساس نہیں کہ ہمارا رب وہ ہے جو اپنے آپ کو ”صمد “کہلاتا ہے اور وہ اپنے اس دعوی میں یقینا حق بجانب بھی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے حواس سے صحیح کام لے کر اپنے آپ کو اللہ کے در کا بھکاری بنالیں۔