چاند یا مریخ پر نماز اور قبلہ کی سمت کا مسئلہ
تحریر: محمد سلیم

چاند یا مریخ پر نماز اور قبلے کا سوال

یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ اگر انسان مستقبل میں چاند یا مریخ پر رہائش اختیار کرے تو وہ نماز کے لیے خانہ کعبہ کی سمت کیسے معلوم کرے گا؟

جواب:

اس قسم کے سوالات سن کر حیرت ہوتی ہے کہ لوگ غیر ضروری اشکالات پیدا کرنے میں اتنی دلچسپی کیوں رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سوال سے زیادہ اہم اور منطقی سوال یہ ہو سکتا ہے کہ جب انسان وفات پا جائے اور قبر میں دفن ہو، تو وہ نماز کس سمت منہ کر کے پڑھے گا؟ ایسے فضول سوالات کا جواب دینا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے، لیکن پھر بھی، اس معاملے کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

قرآن اور حدیث میں رہنمائی

1. قرآن کی روشنی میں:

"بے وقوف لوگ کہیں گے کہ کس چیز نے مسلمانوں کو ان کے قبلہ سے پھیر دیا جس پر وہ تھے۔ کہہ دو مشرق اور مغرب الله ہی کا ہے وہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے”
(سورۃ البقرہ، آیت 142)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ کے نزدیک سمتوں کی اہمیت محض ایک معیار کے لیے ہے، ورنہ مشرق اور مغرب سب اللہ ہی کے ہیں۔

2. قبلہ کی تبدیلی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش:

"بے شک ہم آپ کے منہ کا آسمان کی طرف پھرنا دیکھ رہے ہیں سو ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں، پس اب اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیجیئے”
(سورۃ البقرہ، آیت 144)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قبلے کی تبدیلی اللہ تعالیٰ کی اجازت سے نبی کریم ﷺ کی خواہش کے مطابق ہوئی۔ اس سے پہلے مسلمان سولہ مہینے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، اور ان کی نمازیں بھی قبول ہوتی تھیں۔

نماز کے لیے سمت کا تعین

1. اونٹ پر نفل نماز کا معاملہ:

نبی کریم ﷺ سفر کے دوران اونٹ پر بیٹھے نماز ادا کرتے تھے۔ ابتدا میں قبلے کی طرف رخ کرتے تھے، لیکن نماز کے دوران اونٹ جس سمت بھی مڑتا، اس سے فرق نہیں پڑتا تھا۔

2. اجتماعی فیصلہ (اجماع):

اسلام میں اجماع کا اصول موجود ہے۔ اگر کسی جگہ قبلہ کی سمت معلوم نہ ہو، تو مسلمانوں کی جماعت کسی ایک سمت کا تعین کر کے نماز ادا کر سکتی ہے۔

3. جدید حالات میں نماز کا طریقہ:

ٹرین، جہاز یا کسی اور غیر مستحکم جگہ پر نماز اسی اصول کے تحت ادا کی جا سکتی ہے۔

چاند یا مریخ پر قیام کا سوال

1. منطقی سوالات:

یہ سوال کہ مریخ پر نماز کیسے پڑھی جائے گی، درحقیقت غیر ضروری ہے۔ مریخ پر رہنے کے ہزاروں دوسرے مسائل ہیں، جن پر توجہ دینا زیادہ ضروری ہے۔

2. مریخ پر جانے کی منطق:

زمین پر اب بھی بے شمار غیر آباد جگہیں موجود ہیں۔ اگر ٹھنڈا ماحول پسند ہے تو انٹارکٹیکا جیسی جگہ موجود ہے۔ مریخ پر جانے کا ارادہ اس کے خطرناک موسم اور ناقابل رہائش حالات کے باوجود صرف ایک خواب معلوم ہوتا ہے۔

3. مریخ پر زندگی کے مسائل:

  • موسم: مریخ کا درجہ حرارت منفی 100 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے، جہاں پانی بھی برف کی شکل میں موجود ہے۔
  • پانی: مائع پانی نہ ہونے کے باعث زندگی کی بقا ممکن نہیں۔
  • آکسیجن کی کمی: مریخ پر آکسیجن نہ ہونے کے برابر ہے، جو زندگی کے لیے لازمی ہے۔
  • خوراک کا بحران: مریخ پر زراعت ممکن نہیں، کیونکہ وہاں کی زمین زرخیز نہیں ہے۔

مریخ پر رہنے کا نتیجہ:

اگر کسی طرح انسان مریخ پر آباد ہو بھی گیا، تو اسے زمین کی سمت دیکھ کر ہی قبلہ کا تعین کرنا ہو گا۔ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ایسے سوالات کے بجائے دین کے حقیقی مسائل پر توجہ دی جائے۔

اختتامی بات

میری رائے یہ ہے کہ مریخ پر ملحدوں کو بھیج دیا جائے۔ اگر وہ وہاں سروائیو کر گئے، تو شاید انہیں اللہ کی عظمت کا احساس ہو جائے، اور وہ زمین کی طرف منہ کر کے نماز بھی ادا کریں گے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے