قرآن کی ہدایت: چار شادیوں کی اجازت عدل سے مشروط
اسلام میں مرد کو بیک وقت چار شادیوں کی اجازت دی گئی ہے، لیکن یہ شرط رکھی گئی ہے کہ وہ سب کے ساتھ عدل کرے۔ اگر عدل کرنے سے قاصر ہو، تو پھر ایک شادی پر اکتفا کرنے کا حکم دیا گیا ہے:
"فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً…”
پھر اگر تمہیں ڈر ہو کہ انصاف نہیں کر سکو گے، تو صرف ایک (بیوی رکھو)…
(سورۃ النساء: 3)
عورتوں کی تعداد زیادہ ہونے کی حقیقت
موجودہ دور میں دنیا بھر میں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں تقریباً 6 کروڑ زیادہ ہے، اور یہ فرق کوئی نئی بات نہیں بلکہ تاریخی طور پر ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے۔ اس کی وجوہات میں مردوں کا جنگوں میں کام آنا اور دیگر عوامل شامل ہیں۔
اگر ہر مرد صرف ایک عورت سے شادی کرے تو بھی کروڑوں عورتیں شادی کے بغیر رہ جائیں گی۔ کیا یہ بھی صنفی امتیاز نہیں؟ اگر عورتوں کی اضافی تعداد کو توازن میں لانے کے لیے کچھ کیا جائے، تو کیا یہ میڈیکل سائنس اور قانونی نظام پر سوال نہیں اٹھائے گا؟
اسلام چھوڑ کر مغربی معاشرے کی طرف جھکاؤ
فیمینزم کے پیروکاروں کا یہ اعتراض ہوتا ہے کہ مرد کو چار شادیوں کی اجازت صنفی امتیاز ہے۔ لیکن جب وہ اسلام کے اصولوں کو رد کر دیتے ہیں، تو کیا یہ مرد بے وقوف ہوگا جو ایک ہی شادی پر اکتفا کرے گا؟
جب مرد اسلام کی تعلیمات سے ہٹ جاتا ہے، تو وہ مغربی معاشرے کا ماڈل اپناتا ہے، جہاں شادی کے بغیر تعلقات معمول بن چکے ہیں۔ وہاں مرد اپنی مرضی سے متعدد عورتوں سے تعلقات قائم کرتا ہے، لیکن ان تعلقات میں نہ عورت کی عزت کا خیال رکھا جاتا ہے، نہ اس کے بچوں کی مالی ذمہ داری اٹھائی جاتی ہے۔
باپ کی حیثیت اور مغربی قوانین
مغرب میں ریاست بچوں کی کفالت کرتی ہے، لیکن مشرقی معاشروں میں یہ ذمہ داری باپ پر ہوتی ہے۔ اب اگر معاشرتی قوانین اس حد تک سخت بنا دیے جائیں کہ باپ اپنی اولاد کو سمجھانے یا سرزنش کرنے پر جیل چلا جائے، تو وہ مرد کیوں نکاح کرے گا؟
فیمینزم کی حقیقت اور عورت کی ذمہ داری
فیمینزم کے پیروکار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مرد کو پچاس عورتوں سے تعلقات رکھنے کا حق ہے، تو عورت کو بھی پچاس مردوں سے تعلق رکھنے کا حق ہونا چاہیے۔ لیکن وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ:
- بچے کی پیدائش کی ذمہ داری عورت کے کندھوں پر آتی ہے۔
- حمل، پیدائش، اور پرورش کے مراحل عورت ہی کو جھیلنے پڑتے ہیں۔
مغربی دنیا میں ریاست کچھ حد تک بچے کی ذمہ داری اٹھا لیتی ہے، لیکن مشرق میں یہ سہولت میسر نہیں۔ نتیجتاً، اس نظام میں عورت کے حصے میں صرف ذمہ داری آتی ہے، مزہ نہیں۔
مغرب میں آبادی کا بحران
مغربی معاشرے میں عورتوں نے بچے پیدا کرنے سے اجتناب شروع کر دیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے ہاں بوڑھوں کی تعداد نوجوانوں سے بڑھ چکی ہے۔ اب یہ معاشرے اپنے معاشی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے مشرق سے نوجوان لیبر درآمد کر رہے ہیں، جیسا کہ جرمنی نے شامی مہاجرین کو خوش آمدید کہا۔
صنفی امتیاز کا اصل سوال
جب اسلام کی بات کی جاتی ہے تو صنفی امتیاز کا شور مچایا جاتا ہے، لیکن کوئی اس بات کا جواب نہیں دیتا کہ عورت پر بچے پیدا کرنے کا "بوجھ” کس نے ڈالا؟ اگر عورتوں کے حقوق کے نام پر انصاف چاہیے، تو کیا یہ انصاف نہیں کہ مرد بھی بچے پیدا کرے یا عورت کو اس ذمہ داری سے مکمل ریلیف دیا جائے؟
نتیجہ: قدرتی نظام اور انسانی قوانین
فیمینزم اور لبرل ازم کے نام پر عورت کو وہ مساوات دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جو فطری طور پر ممکن نہیں۔ اس دنیا کے قوانین آپ کے اپنے بنائے ہوئے ہیں، لیکن اس کے باوجود صنفی امتیاز کے مسائل ختم نہیں ہو رہے۔