تمہید
مشہور منکر حدیث پرویز صاحب کا دعویٰ تھا کہ وہ قرآن مجید کو صرف اور صرف اس کی اپنی زبان اور لغت کی بنیاد پر سمجھتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم ان کے فہم قرآن کے اصولوں کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ کیا واقعی ان کا طرزِ عمل معقول اور علمی ہے؟
قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے زبان کی اہمیت
پرویز صاحب کے فہم قرآن میں زبان کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قرآن مجید ایک خاص زبان میں نازل ہوا، اور اس کی تفہیم کے لیے زبان کی گہری واقفیت ضروری ہے۔ لیکن زبان کے استعمال اور سیاق و سباق کو نظرانداز کر کے صرف لغوی تاریخ کے ذریعے معانی متعین کرنا قرآن فہمی کے اصولوں کے خلاف ہے۔ پرویز صاحب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ الفاظ کی لغوی تحقیق کو بنیاد بناتے تھے، لیکن سیاق و سباق اور عرف کو نظرانداز کر دیتے تھے، جو کہ زبان کی تفہیم کے لیے ضروری عناصر ہیں۔
زبان میں لغوی تحقیق کی حدود
زبان میں الفاظ کے معانی ہمیشہ ان کے سیاق، محاورے، اور عرف سے طے ہوتے ہیں، نہ کہ صرف لغوی تاریخ سے۔ لغوی تحقیق کا علم کسی لفظ کے ارتقاء کو سمجھنے کے لیے مفید ہوسکتا ہے، لیکن متکلم کے مدعا کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ لفظ کے اُس وقت کے استعمال کو دیکھا جائے۔
مثال 1: "شوربا”
اگر آج کوئی کہے کہ "میں نے شوربے کے ساتھ روٹی کھائی”، تو ہر اردو دان اس جملے کا مطلب فوراً سمجھ لیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ماہر لسانیات شوربے کی لغوی تاریخ بیان کر کے یہ کہے کہ "شور” کا مطلب نمک اور "با” کا مطلب پانی ہے، تو اس کا مطلب "نمکین پانی” ہوگا، تو یہ تفہیم غلط ہوگی۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف زبان بلکہ متکلم کے مدعا پر بھی ظلم کے مترادف ہوگا۔
مثال 2: "ٹیلی ویژن”
اگر کوئی کہے "میں نے ایک ٹیلی ویژن خریدا” اور اس کا مطلب لغوی تحقیق کی روشنی میں "انتقال منظر” نکالا جائے، تو یہ مفہوم بھی نہ صرف غلط ہوگا بلکہ مضحکہ خیز بھی۔
استعارہ، تشبیہ، اور مجاز کی اہمیت
زبان میں استعارہ، تشبیہ، اور مجاز کے اصول اہم ہوتے ہیں، جنہیں متکلم کے مدعا کی وضاحت کے لیے سمجھنا ضروری ہے۔
- اگر کوئی کہے کہ "میرے سینے میں آگ لگی ہوئی ہے”، تو یہاں "آگ” مجازاً بولی گئی ہے اور اس کا مطلب سینے میں جلن ہوگا، نہ کہ چولہے کی آگ۔
- اسی طرح "شیر آدمی” کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ چڑیا گھر کا شیر ہے، بلکہ یہ کسی کی بہادری کی تعریف کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
پرویز صاحب اکثر الفاظ کے حقیقی معانی پر اصرار کرتے ہیں، جہاں سیاق و سباق واضح طور پر مجازی معنی کی نشاندہی کرتا ہے۔
پرویز صاحب کے اصول فہم قرآن
لغوی تحقیق کی حد سے زیادہ اہمیت
پرویز صاحب نے قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے اس کے الفاظ کی لغوی تحقیق پر غیرضروری زور دیا اور سیاق و سباق اور عرف کو پس پشت ڈال دیا۔ ان کے مشہور تصانیف "مفہوم القرآن” اور "لغات القرآن” میں اس طرز عمل کی مثالیں موجود ہیں۔
مثال 1: سورہ نمل میں "جن” اور "طیر”
"وَحُشِرَ لِسُلَیۡمٰنَ جُنُودُہٗ مِنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ وَ الطَّیۡرِ فَہُمۡ یُوۡزَعُوۡنَ”
"اور سلیمان کے لیے ان کے لشکر جنات، انسانوں اور پرندوں میں سے جمع کیے گئے، پس وہ منظم انداز میں رکھے جاتے تھے۔”
(النمل: 17)
یہاں "جن” کے معنی معروف ہیں، یعنی چھپی ہوئی مخلوق، اور "طیر” سے مراد پرندے ہیں۔ لیکن پرویز صاحب نے "جن” کو "صحرا کے باشندے” اور "طیر” کو "تیز رفتار گھوڑے” قرار دیا۔
مثال 2: "قالت نملۃ”
پرویز صاحب نے "نملۃ” کو قبیلہ نمل کی ایک عورت قرار دیا۔ لیکن قرآن کے اسلوب میں قبیلے کا ذکر اس طرح نہیں ہوتا، اور عربی قواعد کے مطابق "نملۃ” کا مطلب صرف "چیونٹی” ہوسکتا ہے۔
مثال 3: سورہ تکویر کی تاویلات
"اِذَا الشَّمۡسُ کُوِّرَتۡ”
"جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔”
پرویز صاحب نے اس کا مطلب یہ لیا کہ یہ قیامت کی نہیں بلکہ ایک نئے نظام کی پیش گوئی ہے، جہاں ملوکیت ختم ہو جائے گی اور انسانی معاشرت میں انقلاب برپا ہوگا۔
نتیجہ: پرویز صاحب کی غلطی
- پرویز صاحب کے فہم قرآن میں سب سے بڑی خرابی یہ تھی کہ انہوں نے زبان کے مسلمہ اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے لغت کو اپنے خیالات پر مسلط کیا۔
- انہوں نے الفاظ کو سیاق و سباق اور عرف سے الگ کر کے ان کے لغوی معانی کو زبردستی نافذ کیا۔
- استعارہ، تشبیہ، اور تمثیل کی اہمیت کو نظرانداز کیا۔
- اور قرآن کے واضح معانی کو جدید مفروضات کے تحت توڑ مروڑ کر پیش کیا۔
خلاصہ
پرویز صاحب کا طرزِ عمل قرآن کے الفاظ اور اسالیب کی حقیقی تفہیم کے بجائے ان کی ذاتی تشریحات پر مبنی تھا، جس سے قرآن کا اصل مدعا اوجھل ہوگیا۔ ان کی لغوی تحقیق کا طریقہ نہ علمی تھا اور نہ روایتی، بلکہ ان کی ذاتی خواہشات اور جدیدیت کے زیراثر تھا۔ ان کا طرز فکر امت کے علمی ورثے سے انحراف اور قرآن کے ساتھ بے جا تاویل کا مظہر ہے۔