پرویز صاحب کے افکار میں تضادات کا تحقیقی جائزہ

پرویز صاحب کے افکار میں تضادات

منکر حدیث غلام احمد پرویز صاحب نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا کہ ان کے افکار میں کوئی تضاد نہیں ہے اور وہ قرآن مجید کو واحد ماخذ قانون مانتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی تمام تشریحات قرآنی حقائق پر مبنی ہیں، جو ہمیشہ غیر متبدل اور ابدی ہیں۔ لیکن مختلف تحریروں اور مواقع پر ان کے خیالات کے مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کے افکار میں تسلسل نہیں بلکہ تضادات موجود ہیں۔ وہ مختلف ادوار میں قرآنی آیات کی نئی تشریحات پیش کرتے رہے ہیں، لیکن کبھی ان تضادات کا اعتراف نہیں کیا۔ ذیل میں ان کے اہم خیالات اور ان میں پائے جانے والے تضادات کو موضوعات کی شکل میں بیان کیا گیا ہے:

 قرآن اور عورت کو سزا دینے کا معاملہ

پہلا موقف: مرد کو عورت کو مارنے کا حق ہے

پرویز صاحب نے سورہ النساء کی آیت "وَاضْرِبُوهُنَّ” کی تشریح میں جنوری 1949ء میں کہا کہ شوہر کو عورت کی سرکشی کی صورت میں مارنے کا حق حاصل ہے:

"اگر عورت نیک سرشت ہوگی تو نصیحت کافی ہوگی، لیکن اگر وہ باز نہ آئے تو اس پر سختی کی جا سکتی ہے۔”

[طلوع اسلام، جنوری 1949ء: ص 67]

دوسرا موقف: سزا دینے کا اختیار عدالت کو ہے

اکتوبر 1949ء میں پرویز صاحب نے اپنا نقطہ نظر تبدیل کر لیا اور کہا کہ مارنے کا اختیار شوہر کے بجائے عدالت کو ہے:

"اگر شوہر کی نصیحت سے مسئلہ حل نہ ہو تو پھر معاملہ عدالت میں جائے گا، اور عدالت فیصلہ کرے گی کہ عورت کو کس قسم کی سزا دی جائے۔”

[طلوع اسلام، اکتوبر 1949ء: ص 92]

تیسرا موقف: اصلاح معاشرہ کے ذریعے ہوگی

1957ء میں پرویز صاحب نے ایک نیا موقف اختیار کیا کہ تینوں احکامات (نصیحت، الگ رہنا، اور مارنا) معاشرے کے سپرد ہیں:

"معاشرہ کو نصیحت اور اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے، اگر مسئلہ حل نہ ہو تو عدالت جسمانی سزا دے سکتی ہے۔”

[طلوع اسلام، فروری 1957ء: ص 43]

 حضرت نوحؑ کی عمر

پہلا موقف: نوحؑ کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی

"انسانی جسم کی مضبوطی کی وجہ سے قدیم زمانے میں طویل عمریاں کوئی تعجب کی بات نہیں تھیں۔”

[معارف القرآن: جلد دوم، ص 376]

دوسرا موقف: نوحؑ کی عمر 200 سال تھی

"عربی میں سنۃ کا مطلب ‘فصل’ بھی ہوتا ہے، اس حساب سے نوحؑ کی عمر دو سو سال ہوتی ہے۔”

[جوئے نور، ص 34]

 قومِ نوح کی ہلاکت کی وجہ

پہلا موقف: قوم نوحؑ تکذیب حق کے باعث ہلاک ہوئی

"قوم نوحؑ نے حق کی دعوت کو جھٹلایا، اس لیے ان کے جرائم کی پاداش میں وہ ہلاک کر دیے گئے۔”

[معارف القرآن: جلد دوم، ص 370]

دوسرا موقف: قوم نوحؑ کی ہلاکت قدرتی حادثہ تھی

"سیلاب جیسے قدرتی حادثات کسی قوم کے اعمال کا نتیجہ نہیں ہوتے۔”

[جوئے نور، ص 29]

 منطق الطیر (پرندوں کی بولی)

پہلا موقف: منطق الطیر سے مراد پرندوں کی بولی ہے

"حضرت سلیمانؑ کو پرندوں کی زبان سکھائی گئی۔”

[معارف القرآن، جلد سوم، ص 405]

دوسرا موقف: منطق الطیر سے مراد گھوڑوں کا لشکر ہے

"منطق الطیر کا مطلب پرندوں کی بولی نہیں بلکہ گھوڑوں کے لشکر کا علم ہے۔”

[برقِ طور: ص 253-254]

 قربانی کے احکامات

پہلا موقف: قربانی فرض ہے

"اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔”

[معارف القرآن: جلد چہارم، ص 369]

دوسرا موقف: قربانی کی نئی تشریح

"یہ آیت قربانی کے متعلق نہیں بلکہ اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے کوشش کی تلقین کرتی ہے۔”

[مفہوم القرآن: ص 1488]

خلاصہ

پرویز صاحب کے دعوے کے برعکس ان کی مختلف تحریریں واضح طور پر ان کے افکار میں تضادات کو ظاہر کرتی ہیں۔ قرآن کے واحد مفہوم کا دعویٰ کرتے ہوئے، انہوں نے خود مختلف آیات کے متضاد معانی بیان کیے، جو ان کے نظریاتی استقلال پر سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے