حج پر وقوف عرفات کا بہترین مقام
تحریر: عمران ایوب لاہوری

وقوف عرفات کا مقام
نماز ظہر و عصر کے بعد جبلِ رحمت کے قریب کھڑے ہونا اور دعائیں مانگنا مستحب ہے ۔ علاوہ ازیں میدان عرفات میں کسی بھی جگہ کھڑے ہونا جائز ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ :
وعرفة كلها موقف
”عرفہ سارے کا سارا وقوف کی جگہ ہے۔“
[مسلم: 1218 ، ابو داود: 1936 – 1937 ، ابن ماجة: 3048 ، شرح السنة: 1926]
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غروب آفتاب کے بعد عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہوئے اور پھر جب وہاں پہنچے:
فصلى بها المغرب والعشاء بأذان واحد وإقامتين ولم يسبح بينهما شيئا ثم اضطجع حتى طلع الفجر
”تو مغرب و عشاء کو ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ادا فرمایا اور ان دونوں کے درمیان کوئی نفل نہیں پڑھے۔ پھر لیٹ گئے حتی کہ فجر طلوع ہو گئی ۔“
[مسلم: 1218]
پھر فجر پڑھنے کے بعد مشعرِِ حرام میں آئے گا اور وہاں اللہ کا ذکر کرتے ہوئے، سورج طلوع ہونے سے پہلے تک وہیں ٹھہرے گا پھر بطنِ محسر میں آئے گا
اس کی تفصیل گذشتہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں موجود ہے۔ مزید برآں ذکر کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
فَاذْ كُرُوا اللهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ [البقرة: 198]
”مشعر حرام کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو ۔“
عمرو بن میمون کا بیان ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مزدلفہ میں فجر کی نماز پڑھی تو میں بھی موجود تھا۔ نماز کے بعد آپ ٹھہرے اور فرمایا کہ مشرکین (جاہلیت میں یہاں سے) سورج نکلنے سے پہلے نہیں جاتے تھے۔ کہتے تھے اے ثبیر! (ثبیر ایک پہاڑ کا نام ہے جو منٰی جاتے ہوئے بائیں جانب پڑتا ہے ) تو چمک جا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کی مخالفت کی اور سورج نکلنے سے پہلے وہاں سے روانہ ہو گئے۔
[بخاري: 684 ، كتاب الحج: باب متى يدفع من جمع ، ابو داود: 1938 ، ترمذي: 896 ، نسائي: 265/5 ، ابن ماجة: 3022 ، أحمد: 14/1 ، دارمي: 59/2 ، ابن خزيمة: 2859 ، ابن حبان: 3860 ، شرح معاني الآثار: 218/2 ، بيهقي: 124/5]
معلوم ہوا کہ مزدلفہ سے نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے لوٹنا چاہیے البتہ کمزور ، بیمار ، بوڑھے ، بچے اور عورتیں وغیرہ مزدلفہ میں پوری رات گزارے بغیر بھی منٰی جا سکتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے مزدلفہ کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے واپس آ جائیں (یہ اجازت انہوں نے اس لیے طلب کی) کہ بھاری جسم والی تھیں (لٰہذا آہستہ آہستہ چلتی تھیں ) آپ صلى الله عليه وسلم نے انہیں اجازت دے دی ۔
[بخارى: 1680 ، كتاب الحج: باب من قدم ضعفة أهله بليل ، مسلم: 1290 ، نسائي: 262/5 ، أحمد: 213/6 ، ابن ماجة: 3027 ، دارمي: 58/2 ، بيهقي: 124/5 ، أبو يعلى: 4808]
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں تھا جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کے کمزور لوگوں کے ساتھ مزدلفہ کی رات میں ہی منٰی بھیج دیا تھا۔
[بخارى: 1678 أيضا ، مسلم: 1293 ، ابو داود: 1939 ، ترمذي: 892 ، نسائي: 261/5 ، ابن ماجة: 3026 ، ابن خزيمة: 2870 ، ابن الجارود: 463 ، شرح معاني الآثار: 218/2 ، أبو يعلى: 2386]
محسر ، منٰی اور مزدلفہ کے درمیان ایک مشہور وادی کا نام ہے لیکن یہ نہ منٰی کا حصہ ہے اور نہ ہی مزدلفہ کا۔ اس کا نام وادی محسر اس لیے رکھا گیا ہے کہ ابرہہ کے ہاتھی یہاں ٹھہر گئے اور پھر یہیں ان پر عذاب نازل ہوا۔ لہذا وادی محسر سے تیزی سے گزر جانا چاہیے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أن النبى صلى الله عليه وسلم اوضع فى وادي محسر
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم وادی محسر سے تیزی سے گزرے ۔ “
[صحيح: صحيح ترمذي: 703 ، كتاب الحج: باب ما جاء فى الإفاضة من عرفات ، ترمذي: 886 ، ابن ماجة: 4023 ، ابن خزيمة: 2862]
پھر درمیانے راستے پر چلتے ہوئے اُس جمرے کے پاس آئے گا جو درخت کے پاس ہے اور اسے جمرہ عقبہ کہتے ہیں وہاں وہ اتنی چھوٹی سات کنکریاں جو کہ انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے پھینکی جا سکیں ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے ہوئے مارے گا
بعینہ یہ بات حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث میں موجود ہے۔
[مسلم: 1218]
لفظ ”حذف“ مصدر ہے باب خَلَفَ يَخْدِف (ضرب) سے۔ اس کا معنی انگلیوں (کے پوروں) سے کنکر پھینکنا (جو کہ تقریبا لوبیے کے دانے کے برابر ہو) ہے ۔
[المنجد: ص/ 197]
ایک روایت میں ہے کہ :
امرهم أن يرموا بمثل حصى الخذف
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو چھوٹی کنکریاں پھینکنے کا حکم دیا۔
[صحيح: صحيح ابو داود: 1713 ، كتاب المناسك: باب التعجيل من جمع ، ابو داود: 1944 ، نسائي: 258/5 ، ترمذي: 886 ، ابن ماجة: 3023 ، ابن خزيمة: 2862]
یہ کنکریاں صرف طلوع آفتاب کے بعد مارے گا البتہ عورتیں اور بچے اس سے پہلے بھی مار سکتے ہیں
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا ترموا الجمرة حتى تطلع الشمس
”طلوعِ آفتاب سے پہلے کنکریاں مت مارو۔ “
[صحيح: صحيح ابو داود: 1710 أيضا ، ابو داود: 1940 ، نسائي: 271/5 ، ابن ماجة: 3025 ، بيهقي: 131/5 ، أحمد: 234/1 ، شرح السنة: 1943 ، مشكل الآثار: 3501 ، طبراني كبير: 12699]
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی روایت میں ہے کہ انہوں نے رات کو کنکریاں ماریں پھر واپس آ گئیں اور صبح کی نماز اپنے ڈیرے پر ادا کی۔ اور سنن ابی داود کی روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا:
إنا كنا نصنع هذا على عهد رسول الله
”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ عمل کیا کرتے تھے ۔“
[بخاري: 1679 ، كتاب الحج: باب من قدم ضعفة أهله بليل ، مسلم: 297 ، أحمد: 347/6 ، ابن خزيمة: 2884 ، ابو داود: 1943]
علاوه ازیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی جس روایت میں ہے کہ ”حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فجر سے پہلے کنکریاں ماریں ۔“ وہ ضعیف ہے۔
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 423 ، كتاب المناسك: باب التعجيل من جمع ، ابو داود: 1942 ، مسند شافعي: 357/1 ، شرح معاني الآثار: 218/2 ، بيهقي: 133/5 ، حاكم: 429/1]
(جمہور ، احمدؒ ، احناف ) صبحِ صادق سے پہلے کنکریاں مارنا جائز نہیں۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو صبح ہونے کے بعد دوبارہ کنکریاں مارے گا۔
(شافعیؒ) فجر سے پہلے بھی کنکریاں مارنا جائز ہے۔
[فتح البارى: 344/4 ، نيل الأوطار: 419/3 ، الأم: 330/2 ، شرح المهذب: 177/8 ، المبسوط: 64/4 ، الھدایۃ: 150/1 ، الکافی: ص/144 ، الغنی: 294/5 ، کشاف اقناع: 500/2]
(راجح) فجر سے پہلے کنکریاں نہیں مارنی چاہیں البتہ کوئی عذر ہو یا ضعیف و ناتواں بوڑھے یا بچے یا خواتین فجر سے پہلے رات میں بھی کنکریاں مار سکتے ہیں جیسا کہ گذشتہ احادیث سے یہی ثابت ہوتا ہے۔
◈ ایامِ تشریق میں کنکریاں مارنے کا وقت دوپہر زوالِ آفتاب سے لے کر غروبِ آفتاب تک ہے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
رمي رسول الله صلى الله عليه وسلم الجمرة يوم النحر ضحى وأما بعد فإذا زالت الشمس
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے روز جمرہ عقبہ کو دن چڑھے کنکریاں ماریں جبکہ اس کے بعد (ایام تشریق میں ) دن ڈھلے کنکریاں ماریں ۔“
[مسلم: 1218 ، نسائي: 236/5 ، ابو داود: 1905]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1