وضو توڑنے والے اعمال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر نماز میں وضو ٹوٹ جائے تو ناک پر ہاتھ رکھ کر لوٹو۔‘‘
(ابو داود، الصلاۃ باب استئذان المحدث للامام، ۴۱۱۱۔ اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا۔)
➊ شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص شرمگاہ کو ہاتھ لگائے پس وہ وضو کرے۔‘‘
(ابو داود، الطھارۃ، باب الوضوء، من مس الذکر، ۱۸۱۔ ترمذی: ۲۸)
یہ حکم اس صورت میں ہے جب براہِ راست بغیر کپڑے کے ہاتھ لگایا جائے۔
➋ مذی خارج ہونے سے وضو
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر مذی خارج ہو تو شرمگاہ کو دھو لو اور (نماز کے وقت) وضو کرو۔‘‘
(بخاری، الوضوء، ۸۷۱۔ مسلم: ۳۰۳)
➌ نیند سے وضو
حدیث علی رضی اللہ عنہ:
’’دونوں آنکھیں سرین کی سربند (تسمہ) ہیں۔ پس جو شخص سو جائے اسے چاہیے کہ دوبارہ وضو کرے۔‘‘
(ابوداود، الطھارۃ، باب فی الوضوء من النوم، ۳۰۲۔ ابن ماجہ: ۷۷۴)
حدیث صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم سفر میں اپنے موزے تین دن اور تین راتوں تک پیشاب، پاخانے اور نیند کی وجہ سے نہ اتاریں بلکہ ان پر مسح کریں۔
(ترمذی، الطھارہ، باب المسح علی الخفین: ۶۹)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نیند وضو کو توڑ دیتی ہے۔
ٹیک لگا کر یا لیٹ کر سونے سے وضو ٹوٹے گا، جبکہ بیٹھے بیٹھے اونگھنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
حدیث انس رضی اللہ عنہ:
اصحاب رسول نماز عشاء کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے اونگھتے تھے اور وضو کئے بغیر نماز ادا کر لیتے تھے۔
(مسلم، الحیض، باب الدلیل علی ان نوم الجالس لا ینقض الوضوء: ۶۷۳)
➍ ہوا خارج ہونے سے وضو
حدیث عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم نماز پڑھ رہے ہو اور ہوا خارج ہو جائے تو جا کر وضو کرو۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۴۱۴۱)
شک کی صورت میں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نماز اس وقت تک نہ توڑے جب تک (ہوا نکلنے کی) آواز نہ سن لے یا اسے بدبو محسوس ہو۔‘‘
(بخاری، الوضوء، باب من لا یتوضا من الشک حتی یستیقن، ۷۳۱، مسلم: ۱۶۳)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف شک یا وہم سے وضو نہیں ٹوٹتا، یقین ضروری ہے۔
مستقل بیماری کی صورت میں:
فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن عبدالرحمن الجبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ایسا شخص جو ہر وقت ہوا خارج ہونے کی حالت میں ہو، اس کا وضو اور نماز نہیں ٹوٹے گی، اس کا حکم معذور شخص جیسا ہو گا، تاہم ہر نماز کے لیے وقت شروع ہونے کے بعد نیا وضو کرنا ہو گا۔
(فتاوی اسلامیہ، اول ۷۶۶)
➎ قے، نکسیر اور وضو
قے یا نکسیر سے وضو ٹوٹنے والی روایت:
(ابن ماجہ: ۱۲۲۱)
کو امام احمد اور دیگر محدثین نے ضعیف کہا ہے۔ ان روایات کی سند میں شدید ضعف ہے، اس لیے اصل اصول "براءت اصلیہ” پر عمل کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ خون نکلنے سے وضو فاسد نہیں ہوتا۔
غزوہ ذات الرقاع کا واقعہ:
ایک انصاری صحابی پر رات میں دشمن نے تیر چلائے، وہ زخمی ہو گئے اور خون بہتا رہا مگر وہ نماز میں مشغول رہے۔
(ابوداود، الطھارۃ، باب الوضوء من الدم، ۸۹۱۔ حاکم ۱/۶۵۱، ذہبی: صحیح)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ:
جب وہ زخمی کئے گئے تو خون بہنے کے باوجود نماز پڑھتے رہے۔
(موطا امام مالک ۱/۹۳، السنن الکبری للبیہقی ۱/۷۵۳)
اس سے واضح ہوتا ہے کہ خون بہنا وضو کو نہیں توڑتا۔
➏ بیوی کا بوسہ لینا
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض ازواج مطہرات کا بوسہ لیا اور پھر وضو کئے بغیر نماز کے لیے تشریف لے گئے۔
(ابو داؤد، الوضوء من القبلۃ، ۸۷۱، ترمذی، ترک الوضوء من القبلۃ، ۶۸)
شیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عورت کو چھونا، خواہ بغیر کسی حائل کے ہو یا شہوت کے ساتھ، بوسہ دینا یا قریب آنا وضو نہیں توڑتا۔
(فتاوی اسلامیہ، اول ۹۹۲)
وضاحت: البتہ اگر اسی حالت میں مذی خارج ہو جائے تو آلہ تناسل، خصیتین اور کپڑے کے آلودہ حصے کو دھونا اور نماز کے لیے وضو کرنا واجب ہو گا۔
(فتاوی اسلامیہ، اول ۰۱۳)