وضو میں وقت اور پانی کے ضیاع سے بچنے کا طریقہ
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ، جلد 1

سوال

ایک عام انسان وضو کتنی دیر میں مکمل کرتا ہے؟ میں تقریباً 1 سے 2 منٹ میں وضو مکمل کر لیتا ہوں، لیکن میرا ایک دوست، جو پانچ وقت کا نمازی ہے اور صاف ستھرا کام کرتا ہے، ہر وضو میں 10 منٹ یا اس سے زیادہ وقت لگاتا ہے۔ جب میں نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ "تسلی ہونی چاہیے۔” میں نے اپنی رائے دی کہ اتنا وقت لگانا اور پانی ضائع کرنا مناسب نہیں۔ کیا میری رائے درست ہے؟

جواب

آپ کی رائے بالکل درست ہے۔ وضو کا عمل عموماً 1 سے 2 منٹ میں مکمل ہو جانا چاہیے۔ اگر کوئی شخص 10 منٹ یا اس سے زیادہ وقت صرف کرتا ہے، تو یہ عموماً وہم کی علامت ہے۔ اس میں تسلی نہ ہونے کی وجہ سے بار بار اعضاء کو دھونا شامل ہو سکتا ہے، جو ایک غیر ضروری عمل ہے۔

وضو میں وقت اور پانی کا ضیاع: شریعت کی نظر میں

وقت کا ضیاع:
وضو کا مقصد نماز کے لیے جسمانی اور روحانی پاکیزگی حاصل کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص غیر ضروری طور پر زیادہ وقت لگائے تو یہ وقت کا ضیاع ہے، جو کہ ایک قیمتی نعمت ہے۔

پانی کی فضول خرچی:
وضو میں پانی کی فضول خرچی سے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"وضو میں اعتدال برتو، خواہ تم بہتی ہوئی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ ہو۔”
(مسند احمد)

وسوسے اور وہم:

شیطان کا ایک حربہ یہ ہے کہ وہ وسوسے ڈال کر لوگوں کو غیر ضروری اعمال میں مبتلا کرتا ہے، جس سے ان کی عبادات میں خلل پیدا ہوتا ہے۔
حدیث میں آیا ہے:
"وضو میں وسوسہ شیطان کی طرف سے ہے، لہٰذا اس سے بچو۔”

وہم کی بیماری اور علاج

ایسے افراد کو وہم کی بیماری ہو سکتی ہے، جس کی وجہ سے وہ غیر ضروری طور پر اعضاء کو بار بار دھوتے ہیں۔
انہیں چاہئے کہ:

  • کسی ماہر ڈاکٹر یا عالم دین سے رجوع کریں۔
  • وضو کو سنت کے مطابق کریں اور اپنی عادت کو اعتدال پر لائیں۔
  • وضو میں یقین رکھیں کہ ایک بار دھونا کافی ہے، جیسا کہ نبی ﷺ نے ہمیں سکھایا۔

وضو کی سنت طریقہ

وضو کرتے وقت نبی کریم ﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ:

  • ہر عضو کو ایک، دو یا تین بار دھونا سنت ہے۔
  • غیر ضروری بار بار دھونے سے گریز کریں۔
  • وضو کو آسان اور اعتدال کے ساتھ انجام دیں۔

نتیجہ: وقت اور پانی کی قدر کریں

وضو میں غیر ضروری طور پر وقت اور پانی کا ضیاع نہ کریں۔ تسلی کے نام پر وسوسوں کو جگہ دینا مناسب نہیں۔ وضو کو سنت کے مطابق کریں اور وقت اور پانی کی اہمیت کو سمجھیں۔

واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے