’وحدتِ ادیان‘ ایک ایسی تحریک ہے جو مختلف مذاہب کے درمیان فرق کو مٹانے اور ان کو یکساں طور پر قابل قبول بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس تحریک کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد کو تبدیل کر دیا جائے، خاص طور پر اس میں مسلمانوں کی لغت سے ’کافر‘ جیسے الفاظ کو نکال دیا جائے، تاکہ مختلف مذاہب کو اسلام کے ساتھ برابر رکھا جا سکے۔ لیکن یہ سوچ، جو بظاہر پرامن بقائے باہمی کی حامی نظر آتی ہے، اسلامی عقائد اور قرآن کے واضح احکامات سے متصادم ہے۔
آیت کے غلط استعمال کی وضاحت
سورہ البقرہ کی آیت 62 کو بعض لوگ غلط استعمال کر کے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ اور دیگر مذاہب کے پیروکار بھی جنت میں داخل ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ اللہ اور آخرت پر ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں۔ تاہم، اس آیت کی سیاق و سباق میں جو تشریح کی گئی ہے، اس کا مقصد یہ تھا کہ یہودیوں کے اس زعم کا رد کیا جائے کہ صرف وہی نجات یافتہ قوم ہیں۔ یہاں یہ واضح کیا گیا ہے کہ نجات ایمان اور نیک اعمال پر مبنی ہے، نہ کہ کسی خاص نسل یا قوم پر۔
قرآنی محکمات کا تقاضا
قرآن میں دیگر بہت سی آیات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو قبول نہیں کیا جائے گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا نجات کے لیے ضروری ہے۔ مثال کے طور پر سورۃ آل عمران کی آیت 85 اور دیگر آیات میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین اختیار کرے گا، وہ آخرت میں خسارہ پائے گا۔
سلف صالحین کی تشریح
جب ہم سلف صالحین کی تفاسیر کی طرف رجوع کرتے ہیں تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ یہ آیت (سورۃ البقرہ: 62) ان لوگوں کے بارے میں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کے تھے، یعنی یہودی، عیسائی اور صابی اگر اپنے وقت میں ایمان لائے اور نیک عمل کیے، تو وہ نجات پائیں گے۔ تاہم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد، ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان پر ایمان لائے، کیونکہ قرآن کی دوسری آیات اس بات کی تاکید کرتی ہیں۔
وحدتِ ادیان کے داعیوں سے چند سوالات:
اسلام چھوڑنے کا سوال: اگر وحدتِ ادیان کے داعی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جنت میں جانے کے لیے رسالتِ محمدی پر ایمان لانا ضروری نہیں، تو یہ خود اسلام کو کیوں نہیں چھوڑ دیتے اور کسی اور مذہب کو کیوں نہیں اختیار کر لیتے؟ اگر رسالت محمدی اضافی ہے اور ضروری نہیں، تو پھر خود کو مسلمان کہلوانے کی کیا ضرورت ہے؟
دعوت کی منسوخی: اگر یہود و نصاریٰ اور دیگر مذاہب کے پیروکار اپنے عقیدے کی بنیاد پر جنت میں جا سکتے ہیں، تو اسلام کی دعوت کا مقصد کیا رہ جاتا ہے؟ اگر دوسرے مذاہب کے لوگ بھی نجات پا سکتے ہیں، تو پھر ان کو اسلام کی دعوت دینے کا مطلب کیا رہ جاتا ہے؟
قرآنی دعوت کا مقصد: اللہ نے قرآن میں یہود و نصاریٰ کو بار بار ایمان لانے کی دعوت کیوں دی؟ اگر ان کا اپنا ایمان نجات کے لیے کافی تھا، تو پھر یہ طویل مکالمے کیوں کیے گئے؟
خلاصہ
اسلام ایک مکمل اور آخری دین ہے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لائے بغیر نجات ممکن نہیں۔ جو لوگ "وحدتِ ادیان” کا پرچار کرتے ہیں اور قرآنی آیات کو توڑ مروڑ کر اپنے نظریات کے مطابق پیش کرتے ہیں، وہ قرآن کی اصل تعلیمات کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم دین کے بنیادی عقائد پر قائم رہیں اور سلف صالحین کے طریقے پر فہمِ نصوص کو اپنائیں۔