وحدانیت خداوندی کے عقلی اور منطقی دلائل

کہانی: دو ممالک اور دو بادشاہ

ایک فرضی کہانی کے ذریعے یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کسی بھی چیز کے وجود کے لیے اس میں فرق واضح ہونا ضروری ہے۔ اگر دو ممالک یا دو بادشاہ ہوں، لیکن ان کے اعمال، ارادے، یا خصوصیات میں کوئی فرق نہ ہو، تو حقیقتاً وہ دو نہیں بلکہ ایک ہی تصور ہوں گے۔

یہی اصول خالق کے معاملے پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر دو خالق موجود ہوں اور ان کے تمام اوصاف، ارادے، اور اعمال ایک جیسے ہوں تو درحقیقت وہ ایک ہی خالق ہوں گے۔

دلیلِ استثناء

ایک ارادہ:

یہ دلیل کہتی ہے کہ دو یا زیادہ خالق ہونے کی صورت میں ان کے ارادوں میں اختلاف ہونا ممکن ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ایک خالق کسی چیز کو حرکت دینا چاہے اور دوسرا اس کی مخالفت کرے، تو تین امکانات ہیں:

  • ایک خالق کا ارادہ غالب آجائے۔
  • دونوں کے ارادے منسوخ ہو جائیں۔
  • دونوں ایک ارادے پر متفق ہو جائیں۔

ہر صورت میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یا تو ایک ارادہ غالب ہے یا کوئی ارادہ نہیں، اور دونوں صورتیں وحدانیت خداوندی کی دلیل ہیں۔

دلیلِ تفہیمی اختلاف

خالق میں فرق کیسے؟

کسی بھی دو چیزوں کے درمیان فرق ان کے اوصاف یا محل وقوع کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اگر دو خالق ہوں لیکن ان میں کسی بھی قسم کا فرق نہ ہو، تو وہ دو نہیں بلکہ ایک ہوں گے۔

مثال:

اگر دو درخت ایک جیسی شکل و جسامت رکھتے ہوں، لیکن ایک دوسرے سے مختلف مقام پر ہوں، تو یہی فرق ان کی تعداد ثابت کرتا ہے۔ خالق کے معاملے میں، اگر ہر پہلو میں وہ ایک جیسے ہوں تو ان میں فرق کرنا ناممکن ہوگا، اور نتیجتاً وہ ایک ہی مانے جائیں گے۔

دلیلِ اوکام کا استرا

سادہ ترین وضاحت:

اوکام کا استرا کہتا ہے کہ جب تک اضافی وجوہات پیش کرنے کی ضرورت نہ ہو، ہمیں سادہ ترین وضاحت پر قائم رہنا چاہیے۔

مثال:

اگر ہم کہیں کہ ایک مکمل طور پر طاقتور خالق نے کائنات تخلیق کی، تو یہ سادہ اور منطقی وضاحت ہے۔ اس کے برعکس، دو یا زیادہ خالق ماننے سے اضافی سوالات پیدا ہوتے ہیں، جیسے:

  • وہ آپس میں کیسے تعلق رکھتے ہیں؟
  • ان کے ارادوں میں تصادم کیسے روکا جاتا ہے؟
  • ان کے اختیارات کی تقسیم کیسے ہوتی ہے؟

چنانچہ، سادہ ترین وضاحت یہی ہے کہ خالق صرف ایک ہے۔

دلیلِ تعریف

کائنات میں نظم:

کائنات میں جو نظم، ترتیب اور ہم آہنگی موجود ہے، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا خالق ایک ہی ہے۔

قرآن کی آیت:

"اگر آسمان اور زمین میں خدا کے سوا اور معبود ہوتے تو زمین وآسمان درہم برہم ہوجاتے۔”
(سورۃ الانبیاء، آیت 22)

تفسیر الجلالین:

"اگر ایک سے زیادہ خدا ہوتے، تو کائنات میں اختلاف اور تباہی پیدا ہو جاتی، جیسا کہ انسانی حکمرانی میں متعدد حکمرانوں کی صورت میں ہوتا ہے۔”
(تفسیر الجلالین، ص 690)

وحدانیت کے بغیر ممکن نہیں:

اگر دو یا زیادہ خالق ہوتے اور ان میں کوئی اختلاف نہ ہوتا، تو ان کے ارادے محدود مانے جاتے، اور وہ اپنی تعریف کے مطابق خالق نہیں رہتے۔

دلیلِ وحی

قرآن کی گواہی:

وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کو واضح کیا ہے۔ اگر قرآن کا من جانب اللہ ہونا ثابت ہو جائے تو اس میں موجود معلومات کو درست تسلیم کرنا لازمی ہو گا۔

قرآن کی آیت:

"ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔”
(سورۃ العنکبوت، آیت 46)

وحی کے معیار:

  • وحی کا داخلی اور خارجی طور پر ہم آہنگ ہونا۔
  • وہ خدا کی صفات کے عین مطابق ہو۔
  • اس میں ماورائے عقل نشانیاں موجود ہوں، جو اس کے الٰہی ہونے کا ثبوت ہوں۔

اثرات اور عملی نتیجہ

اللہ کی وحدانیت کا اقرار انسان کے شعور اور معاشرت پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے:

  • ہمیں دنیا کو وحدت کے زاویے سے دیکھنا چاہیے، فرقہ وارانہ اور تقسیم شدہ نظریات سے نہیں۔
  • تمام انسانیت کو ایک خاندان سمجھ کر محبت اور رحم کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔”
(جامع ترمذی: کتاب البر والصلۃ، حدیث 1924)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے