276- باپ کا اپنے بیٹے سے تحفہ واپس لینے کا حکم
اگر باپ اس میں مصلحت سمجھے اور بیٹا اسے واپس کرنے کی استطاعت رکھے تو اسے کے لیے اسے واپس لے لینا جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”کسی مسلمان آدمی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی تحفہ دے، پھر اس سے رجوع کر لے مگر والد جو اپنے بیٹے کو دے اس سے رجوع کر سکتا ہے۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3539]
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 68/20]
277- بیٹے کا باپ سے مطالبہ کرنا کہ وہ تحفہ دینے کے فیصلے کو عملی جامہ پہنائے اور اس کے لیے اس کو مجبور کرنا
بیٹے کے لیے ایسا کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ یہ مذکورہ حدیث کی دلالت کے خلاف ہے بلکہ یہ نافرمانی کے زمرے میں آتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے نافرمانی حرام کر رکھی ہے اور اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔
صحیحین میں ابو بکر ثقفی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں؟“
ہم نے کہا کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سریر آرائے مسند تھے کہ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے:
”ہاں، ہاں، جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی بھی۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 5976 صحيح مسلم 87/143]
لہٰذا اولاد کا فرض بنتا ہے کہ والدین کی نافرمانی سے بچیں اور ان کے ساتھ حسن سلوک کے لیے عملی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
«وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا» [الإسراء: 23]
”اور تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔“
نیز فرمایا:
«أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ» [لقمان: 14]
”میرا شکر کرو اور اپنے ماں باپ کا، میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔“
اس موضوع پر کتاب وسنت کے دلائل بے شمار ہیں۔
[ابن باز: مجموع الفتاوى و المقالات: 69/20]