سوال : بعض لوگ ماہِ رمضان میں جانور ذبح کر کے دعوت کرتے ہیں۔ اور اس کا نام والدین کی طرف سے ڈنر (شام کا کھانا) رکھتے ہیں۔ اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : فوت شدہ والدین کے لئے صدقہ کرنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن والدین کی طرف سے صدقہ کرنے کے مقابل میں ان کے لئے دعا کرنا افضل ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے درج ذیل فرمان میں اسی کی طرف رہنمائی کی ہے اور اسی کا حکم دیا ہے :
إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلامن ثلاثة : صدقة جا رية، أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعو له [صحيح: صحيح مسلم، الوصية، 25 باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته 3 رقم 14 1631 بروايت أبو هريره رضي الله عنه]
’’ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کی وجہ سے۔ (1) صدقہ جاریہ (2) ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ (3) صالح اولاد جو والدین کے لئے دعاکرے “۔
مذکو رہ بالاحدیث میں آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ صالح اولاد جو والدین کی طرف سے صدقہ کرے یا ان کے لئے صلاۃ ادا کرے۔ پھر بھی اگر کوئی شخص اپنے کسی فوت شدہ آدمی کی طرف سے صدقہ کرے تو جائز ہے۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جائز قرار دیا۔
لیکن بعض لوگ جو رمضان کی راتوں میں جانور ذبح کرتے ہیں اور بہت سے کھانے پکواتے ہیں اور ان میں صرف مالدار لوگوں کی شرکت ہوتی ہے۔ یہ نہ مشروع ہے اور نہ سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہے۔ لہٰذا انسان کے لئے مناسب ہے کہ ایسا کام نہ کرے۔ کیونکہ درحقیقت یہ صرف ایک دعوت ہے جس میں لوگ حاضر ہوتے اور کھانا کھاتے ہیں۔ ان میں سے بعض لوگ تو ایسے ہیں جو اس قسم کے کھانوں کے لئے جانور ذبح کر کے اس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ گوشت خریدنے کے مقابلے میں جانور ذبح کرنا افضل ہے۔ جب کہ یہ خلاف شرع بات ہے۔ اس لئے کہ جن ذبیحوں سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے وہ قربانی، ہدایا اور عقیقے ہیں۔ لہٰذا رمضان میں جانور ذبح کر کے اللہ کا تقرب حاصل کرنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔ “
جواب : فوت شدہ والدین کے لئے صدقہ کرنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن والدین کی طرف سے صدقہ کرنے کے مقابل میں ان کے لئے دعا کرنا افضل ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے درج ذیل فرمان میں اسی کی طرف رہنمائی کی ہے اور اسی کا حکم دیا ہے :
إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلامن ثلاثة : صدقة جا رية، أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعو له [صحيح: صحيح مسلم، الوصية، 25 باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته 3 رقم 14 1631 بروايت أبو هريره رضي الله عنه]
’’ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کی وجہ سے۔ (1) صدقہ جاریہ (2) ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ (3) صالح اولاد جو والدین کے لئے دعاکرے “۔
مذکو رہ بالاحدیث میں آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ صالح اولاد جو والدین کی طرف سے صدقہ کرے یا ان کے لئے صلاۃ ادا کرے۔ پھر بھی اگر کوئی شخص اپنے کسی فوت شدہ آدمی کی طرف سے صدقہ کرے تو جائز ہے۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جائز قرار دیا۔
لیکن بعض لوگ جو رمضان کی راتوں میں جانور ذبح کرتے ہیں اور بہت سے کھانے پکواتے ہیں اور ان میں صرف مالدار لوگوں کی شرکت ہوتی ہے۔ یہ نہ مشروع ہے اور نہ سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہے۔ لہٰذا انسان کے لئے مناسب ہے کہ ایسا کام نہ کرے۔ کیونکہ درحقیقت یہ صرف ایک دعوت ہے جس میں لوگ حاضر ہوتے اور کھانا کھاتے ہیں۔ ان میں سے بعض لوگ تو ایسے ہیں جو اس قسم کے کھانوں کے لئے جانور ذبح کر کے اس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ گوشت خریدنے کے مقابلے میں جانور ذبح کرنا افضل ہے۔ جب کہ یہ خلاف شرع بات ہے۔ اس لئے کہ جن ذبیحوں سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے وہ قربانی، ہدایا اور عقیقے ہیں۔ لہٰذا رمضان میں جانور ذبح کر کے اللہ کا تقرب حاصل کرنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔ “