بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
بَابُ الْإِخْلَاصِ وَ إِحْضَارِ النِّيَّةِ فِي جَمِيعِ الْأَعْمَالِ وَ الْأَقْوَالِ وَ الْأَحْوَالِ الْبَارِزَةِ وَ الْخَفِيَّةِ.
تمام ظاہری اور باطنی اعمال ، اقوال اور احوال میں اخلاص اور حسن نیت کا بیان .
اخلاص: اس کا معنی یہ ہے کہ ہر عمل اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کیا جائے ، اس کے علاوہ کسی اور جذبے کی اس میں آمیزش نہ ہو۔ اخلاص قبول عمل کی شرائط میں سے ہے، جو چار ہیں۔ ان شرائط میں سے دو کا تعلق عمل کی درستی سے ہے، ایک اخلاص اور دوسری صواب ۔ اخلاص کی تعریف بیان کر دی گئی ہے اور صواب سے مراد یہ ہے کہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح سنت کے موافق ہو۔ باقی دو شرطیں عمل کے کمال سے متعلق ہیں، ایک استقامت یعنی عمل پر مضبوطی سے قائم رہنا اور دوسرا اچھے اعمال بجا لانے میں جلدی کرنا۔
جہاں تک عمل پر مضبوطی سے قائم رہنے اور احکامات الٰہی کو مضبوطی سے تھامنے کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا:
خُذُوا مَا آتَيْنَا كُمُ بِقُوَّةٍ : [البقرة: 63]
”ہم نے جو تمہیں دیا ہے اسے مضبوطی سے تھام لو ۔“ نیز فرمایا:
فَخُذُها بقوة وأمرُ قَوْمَكَ يَأْخُذُوا بِأَحْسَنِهَا : [الأعراف: 145]
”تم ان کو پوری طاقت سے پکڑ لو اور اپنی قوم کو حکم کرو کہ ان کے اچھے اچھے احکام پر عمل کریں ۔ “
مزید فرمایا:
يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ : [مريم: 12]
”اے یحیی ! میری کتاب کو قوت و مضبوطی سے تھام لو۔“
اور اچھے اعمال میں جلدی کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا تَنَيَا فِي ذِكْرِى : [طه: 42]
”میرے ذکر میں سستی نہ کرنا ۔“
ایسی بہت سی آیات ہیں جو نیکی کے کاموں میں جلدی کرنے پر ترغیب دلاتی ہیں۔
——————
قال الله تعالى: وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا الله مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلوةَ وَ يُؤْتُوا الزَّكُوةَ وَ ذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ [البينة: 5]
وَ قَالَ تعالى: لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمُ [الحج: 37]
وَ قَالَ تعالى: قُلْ إِنْ تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُم أو تُبدوه يعلَمُهُ اللهُ [آل عمران: 29] .
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”انہیں (امم سابقہ کو ) صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ یکسو ہو کہ خالص اللہ تعالی کی عبادت کریں، نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں اور (جان لیں کہ ) یہی سیدھا اور سچا دین ہے۔“
اور اللہ تعالی نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کو (تمہاری قربانیوں سے ) نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون ہی ، اسے تو صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔“
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”آپ (ان سے) کہہ دیں کہ خواہ تم اپنے سینوں کی باتیں چھپاؤ خواہ ظاہر کرو اللہ تعالیٰ انہیں جانتا ہے۔“
شرح الآیات:
اس بات کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کہ اس نے اپنے بندوں کو خالص اپنی عبادت کرنے کا حکم فرمایا ، پس وہ اس کی عبادت میں کسی اور کو شریک نہیں کرتے ، وہ تمام باطل ادیان سے منقطع ہو کر صرف دین اسلام کی طرف مائل اور یکسو ہوتے ہیں ، کیونکہ وہ ایسی امت کا دین ہے جو سیدھی ، معتدل اور حق پر ہے۔ یہ وہ امتیازی صفات ہیں جو امت اسلامیہ کو اپنے عقائد و نظریات کے ذریعے سے کافر قوموں سے ممتاز کرتی ہیں ، کیونکہ انبیاء کی بعثت کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ لوگوں کو توحید کی خالص دعوت پیش کریں۔
دوسری آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ اس نے ان جانوروں کی قربانی کو تمہارے لیے مشروع قرار دیا، تا کہ ان کی قربانی کے وقت تم اسے یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کو ان قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون اور نہ اسے ان چیزوں کی ضرورت ہے ، کیونکہ وہ تو خود ہی سب کا روزی رساں ، قوت والا اور زور آور ہے ، وہی تو سب کو کھلاتا ہے اور اسے کوئی نہیں کھلاتا اور وہ ان تمام چیزوں سے مستٰغنی اور بے نیاز ہے۔
جاہلوں اور مشرکوں کا یہ وتیرہ تھا کہ جب وہ اپنے باطل معبودوں کے لیے جانور ذبح کرتے تو وہ ان قربانیوں کا گوشت ان معبودانہ باطلہ کے سامنے رکھتے اور ان پر ان قربانیوں کا خون چھڑکتے تھے ، پس ان کی دیکھا دیکھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے کیا ہم زیادہ حقدار ہیں کہ ہم بھی ان قربانیوں کا خون چھڑکیں تو اللہ تعالٰی نے یہ بات سمجھائی کہ وہ تو صرف ان لوگوں کی قربانی اور دیگر اعمال قبول کرتا ہے جو متقی ہیں ، جو صرف رضائے الٰہی کی خاطر عمل کرتے ہیں۔ مذکورہ آیت میں یہ تنبیہ بھی ہے کہ اگر نیت درست نہ ہو تو پھر اعمال قبول نہیں ہوتے اور وہ باطل و ضائع ہو جاتے ہیں۔
تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بتایا کہ وہ تمام ظاہر اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے اس پر کوئی چیز مخفی نہیں ، بلکہ اس کا علم تو تمام احوال و زماں و لحظات اور تمام اوقات ، نیز جو کچھ آسمان و زمین میں اور ان کے درمیان ، بلکہ جو کچھ تحت الثریٰ میں ہے ، سب کو محیط ہے ، اگر کوئی ذرہ یا اس سے بھی کوئی چھوٹی چیز زمین کے کسی کونے میں ہو ، سمندر کی تہ میں ہو ، یا پہاڑ کے دامن میں ، وہ اللہ سبحانہ و تعالی کے علم میں ہے۔
اللہ عزوجل کی طرف سے بندوں کے لیے تنبیہ ہے کہ وہ اس کے خوف اور خشیت کے پیش نظر ایسے کام نہ کریں جن سے اس نے منع کیا ہے اور جو اس کے غصے اور ناراضی کا باعث بنتے ہیں ، کیونکہ وہ تو ان کے تمام امور سے باخبر ہے اور وہ ان سے انتقام لینے پر قادر ہے مگر وہ انہیں مہلت اور ڈھیل دیتا رہتا ہے اور پھر جب پکڑتا ہے تو اس کی گرفت بھی بہت سخت ہوتی ہے۔ تو جو شخص ان تنبیہات کو جان لیتا ہے تو وہ ایسے اچھے کام کرتا ہے جو اخلاص اور صواب پر مبنی ہوتے ہیں۔
——————
وَعَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ أَبِي حَفْصٍ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ بَنِ نُفَيْلِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بَنِ رِيَاحِ بَنِ عَبْدِ الله بن قرط بن رزاح بن عَدِي بُنِ كَعْبٍ ابْنِ لُوَّى بن غالب القُرَشِى العدوى رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: سمِعْتُ رَسُولَ اللهِ يَقُولُ: ( (إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِيءٍ مَّا نَوًى فَمَنْ كَانَتْ هِجُرَتُهُ إِلَى اللهِ وَ رَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَ رَسُولِهِ، وَ مَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِبْهَا ، أو امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ)). مُتَّفق على صحتِهِ رَوَاهُ إمَامًا المُحَدِّثِينَ أَبُو عَبْدِ الله محمد بن إسْمَاعِيلَ بنِ إِبْرَاهِيمَ بَنِ الْمُغِيرَةِ بن بردزية الجعفى البخارى، وَ أَبُو الْحُسَيْنِ مُسلِمُ ابْنُ الحجاج بن مسلم القشيري النيسابوري رضى اللهُ عَنْهُمَا فِى صَحِيحَيْهِمَا اللَّذَيْنِ هُمَا أَصَحُ الكتب المصنفة.
امیر المومنین حضرت ابو حفص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بن نفیل بن عبد العزی بن ریاح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی بن غالب قرشی عدوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اعمال کا دارو مدار صرف نیتوں پر ہے، ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق بدلہ ملے گا ، پس جس شخص کی ہجرت اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہوگئی ، تو اس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ہوگئی اور جس نے حصول دنیا یا کسی عورت سے نکاح کی غرض سے ہجرت کی تو اس کی ہجرت انہی مقاصد کے لیے ہوگی ، جن کی خاطر اس نے ہجرت کی ۔ “ اس روایت کی صحت متفق علیہ ہے، اسے امام المحد ثین ابو عبد الله محمد بن اسمعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بروز به جعضی بخاری اور امام المحد ثین ابوالحسین مسلم بن حجاج بن مسلم قشیری نیشا پوری رضی اللہ عنہما نے اپنی اپنی ان دو صحیح کتابوں میں روایت کیا ہے جو حدیث کی تمام مصنفہ کتب میں سے سب سے زیادہ صحیح ہیں۔
توثيق الحديث:
[ أخرجه البخارى 9/1 – فتح ، ومسلم 1907]
اس حدیث کی تعظیم میں ائمہ حدیث سے تواتر سے منقول ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم کی احادیث میں اس حدیث سے زیادہ جامع اور فائدہ مند کوئی حدیث نہیں ، کیونکہ یہ حدیث ان احادیث میں سے ہے جن پر اسلام کا مدار ہے۔
غريب الحديث:
الحفص: اس کا معنی ”شیر“ ہے ، شیر کا بچہ جب شکار کے قابل ہو جائے تو اسے حفص کہتے ہیں۔ یہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے۔
النية کسی چیز کا قصد کرنا جو فعل کے ساتھ متصل ہو۔
الهجرة لغوی طور پر اس کے معنی ہیں ”چھوڑ دینا“ اور شرعاً اس کے معنی اللہ تعالیٰ کی منع کردہ چیز کو چھوڑ دینے کے ہیں۔ اسلام میں ہجرت کا مفہوم دو طرح واقع ہوا ہے۔
➊ دار خوف سے دار امن کی طرف منتقل ہونا، جیسے حبشہ کی طرف دو دفعہ اور مدینہ منورہ کی طرف ابتدائی ہجرت ۔
➋ دار کفر سے دار اسلام کی طرف منتقل ہونا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں سکونت اختیار فرمائی۔
يصيبها : ”اسے حاصل کرلے گا۔“
فقه الحديث:
اعمال میں نیت ضروری ہے، خواہ وہ اعمال بطور ذات مقصود ہوں، جیسے نماز، یا وہ کسی دوسرے عمل کو مکمل کرنے کا ذریعہ ہوں، جیسے طہارت اور وضو وغیرہ۔ نیت اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر اخلاص کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
نیت کا محل دل ہے یعنی دل سے نیت کرنا ضروری ہے، زبان سے اس کا اظہار ضروری نہیں ۔ ائمہ المسلمین کا اس پر اتفاق ہے کہ تمام عبادات یعنی طہارت وصلٰوة ، زکوۃ ، روزہ ، حج ، غلاموں کو آزاد کرنا اور جہاد وغیرہ کے لیے نیت کرنا ضروری ہے، لیکن اس کا زبان سے اظہار کرنا بدعت اور گمراہی ہے اور جس نے حج کے موقع پر زبان سے نیت کا اظہار کرنے کو جائز قرار دیا ہے، اسے وہم ہوا ہے کیونکہ اس نے تلبیہ اور نیت میں فرق نہیں کیا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے ان مسائل و احکام کے متعلق ایک الگ رسالہ تصنیف کیا ہے اور میں (یعنی شارح) نے بھی اس مضمون پر ایک رسالہ تصنیف کیا ہے۔ جس کا نام الدور المضبة فى أحكام الاخلاص والنية ہے۔
اعمال صالحہ کے لیے نیت صالحہ ضروری ہے، اچھی نیت سے منکر معروف اور بدعت سنت نہیں بن سکتی۔ بس اس طرح کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو نیکی کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ اسے پا نہیں سکتے۔
قبول عمل کے لیے اللہ تعالی کے لیے اخلاص شرط ہے یعنی وہ عمل صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کیا جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو صرف اس کی رضا کے لیے کیا جائے اور جو صحیح سنت کے موافق ہو۔