مناسب يہ ہے كہ عورت محبت كرنے والي بچے جننے والي، كنواري، خوبصورت، حسب و نسب والي، دين پر كار بند اور مالدار ہو
وَدُوداً سے مراد ایسی عورت ہے جو اپنے شوہر سے بے پناہ محبت کرتی ہو یعنی ایسی محبوب و پسندیدہ عورت جو عمدہ اور بہترین اوصاف و خصائل ، عادات و اطوار ، حسن خلق کی مالک اور اپنے شوہر سے پیار کرنے والی ہو۔ ایسی عورت کے چناؤ کا سبب یہ بھی ہے کہ میاں بیوی کی باہمی محبت سے ہی گھریلو زندگی خوشگوار گزر سکتی ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب عورت اپنے شوہر کو پسند کرتی ہو اور اس کے علاوہ دوسروں میں رغبت نہ رکھتی ہو۔
وَلُودًا ایسی عورت جو بچے زیادہ جنتی ہو۔ یہ چیز عورت کے خاندان کی حالت سے معلوم کی جا سکتی ہے۔ ایسی خواتین اختیار کرنے کا سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی بیان فرما دیا ہے کہ ”میں روز قیامت تمہاری کثرت کے باعث امتوں پر فخر کرنا چاہتا ہوں ۔“ اس لیے تم تزوجوا الودود الولود ”بہت محبت کرنے والی اور بہت بچے جننے والی خواتین سے نکاح کرو۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 1784 ، أحمد: 158/3 ، الحلية لأبي نعيم: 219/4 ، طبراني أوسط كما فى المجمع: 2235 ، ابن حبان: 4028 ، بيهقى: 81/7]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ تم نے کنواری عورت سے نکاح کیا ہے یا بیوہ سے؟ تو انہوں نے کہا ہیوہ سے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فصلا تزوجت بكرا تلاعبها وتلاعبك
”تم نے کنواری سے شادی کیوں نہ کی تم اس سے کھیلتے وہ تم سے کھیلتی (یعنی لطف اندوز ہوتی ) ۔“
[بخاري: 2097 ، كتاب البيوع: باب شراء الدواب والحمير ، مسلم: 715 ، ابو داود: 3505 ، ترمذي: 1100 ، نسائي: 65/6 ، أحمد: 308/3]
خوبصورت اس لیے کیونکہ اغلباً انسانی طبیعت اس میں رغبت رکھتی ہے اور یہ عورت سے محبت و الفت میں اضافے کا باعث ہے نیز انسان کی اگر اپنی بیوی خوبصورت ہو تو وہ دیگر خوبرو خواتین کو دیکھ کر دلبرداشتہ نہیں ہوتا بلکہ مطمئن رہتا ہے۔
اس سے مراد ایسی عورت ہے جسے قریبی رشتہ داروں اور آباء و اجداد کی وجہ سے شرف و بزرگی حاصل ہو ۔ علاوہ ازیں اونچے حسب نسب والی عورت سے شادی کرنا انسان کے لیے باعث شرف وعزت بھی ہوتا ہے۔
یعنی شریعت کے احکام پر کار بند ، گناہوں سے بچنے والی ، اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں تگ و دو کرنے والی خاتون ۔ ایسی عورت کو ترجیح اس لیے ہے کیونکہ یہ انسان کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی کا باعث ہے۔
کیونکہ اس کا خاوند اس کے مال میں رغبت کی وجہ سے اس سے حسن سلوک سے پیش آئے گا اور ان کی اولا د بھی اپنی والدہ سے حاصل شدہ نفع کی بنا پر غنی ہوگی۔
یہ تمام خوبیاں اور صفات میسر ہوں تو بہتر ہے ورنہ صرف دین دار خاتون کو ہی ترجیح دی جائے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت سے نکاح چار اسباب سے کیا جاتا ہے:
اس کے مال کی وجہ سے
اس کے خاندان کی وجہ سے
اس کے حسن و جمال کی وجہ سے
اور اس کے دین کی وجہ سے۔ “
فاظفر بذات الدين تربت يداك
پس تم دین دار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر اگر ایسا نہ کرے تو تیرے دونوں ہاتھ خاک آلودہ ہوں (یعنی تو نادم و پیشمان ہو ) ۔“
[بخاري: 5090 ، كتاب النكاح: باب الاكفاء فى الدين ، مسلم: 1466 ، أحمد: 428/2 ، دارمي: 133/2 ، ابو داود: 2047 ، ابن ماجة: 1858 ، أبو يعلى: 6578 ، الحلية لأبي نعيم: 383/8 ، دار قطني: 302/3]
جس روایت میں ہے کہ بہر صورت دین کی بنا پر ہی نکاح کرو اور دین دار سیاہ رنگ کی لونڈی بھی افضل ہے ۔ وہ ضعیف ہے۔
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 409 ، الضعيفة: 1060 ، ضعيف الجامع: 6216]
یاد رہے کہ دین دار ہونے کے ساتھ ساتھ عورت کا خانگی معاملات سے واقف ہونا بھی ضروری ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتوں میں بہترین عورت قریش کی صالح عورت ہے جو اپنے بچے سے
بہت زیادہ محبت کرنے والی اور اپنے شوہر کے مال اسباب میں اس کی بہت عمدہ نگہبان و نگران ثابت ہوتی ہے۔“
[بخاري: 5082 ، كتاب النكاح: باب إلى من ينكح وأى النساء خير ]